آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج اور سیاسی نعرے
آزاد کشمیر لیجیسلیٹو اسمبلی کے انتخابات کے بالکل ویسے ہی نتائج برآمد ہوئے ہیں جیسا وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد تواتر کے ساتھ دعوے کر رہے تھے‘ جیسا وفاقی حکمران پی ٹی آئی کے ہر انتخابی جلسے میں پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی شکست دیوار پر لکھی ہوئی دکھائی جارہی تھی اور جیسا پی ٹی آئی کے ایک امیدوار نے اپنے حامیوں کی کارنر میٹنگ میں جوش جذبات میں یہ انکشاف کردیا تھا کہ آپ یقین رکھیں‘ جیت ہماری ہی ہے اور ہماری یہ جیت ایجنسیوں کی مرتب کردہ رپورٹوں میں واضح طور پر دکھائی گئی۔
صرف وفاقی حکومتی حلقوں کی جانب سے ہی نہیں‘ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی پی ٹی آئی کی کامیابی کا عندیہ دیا جارہا تھا تاہم اس نظر آنیوالی جیت کے وہ ڈسکہ الیکشن کے ساتھ قلابے ملاتی رہیں اور بالخصوص مریم نواز صاحبہ اپنے ہر جلسے میں مسلم لیگ (ن) کے حامی ووٹروں کو ’’اکساتی‘‘ رہیں کہ آپ نے ووٹ صرف ڈالنا ہی نہیں‘ اپنے ووٹ پر پہرہ بھی دینا ہے۔ چنانچہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں پاکستان کی حکمران پی ٹی آئی کی کامیابی کیلئے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی باتیں بھی درست ثابت ہوئی ہیں جبکہ دانشوروں کے حلقوں کی یہ رائے بھی آزاد کشمیر کے ووٹر عوام نے درست ثابت کر دی ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بالعموم وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جو پاکستان میں برسراقتدار ہو کیونکہ ترقیاتی فنڈز بہرصورت حکومت پاکستان کی جانب سے ہی فراہم کئے جاتے ہیں۔
تجزیہ چاہے جو بھی ہو اور جس کی بھی جانب سے کیا گیا ہو‘ اس سے پی ٹی آئی کی کامیابی پر مہرتصدیق تو ثبت ہو گئی ہے اور کامیابی بھی ایسی کہ پی ٹی آئی 25 نشستوں کے ساتھ سنگل مجارٹی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جسے اب آزاد کشمیر میں حکومت سازی کیلئے کسی دوسری پارلیمانی پارٹی سے معاونت کی بھیک مانگنی پڑیگی نہ اسے کسی کی لاٹھی استعمال کرنے کی ضرورت پڑیگی کیونکہ آزاد کشمیر کے ووٹروں نے یا اپوزیشن کے بقول ’’چھومنتر‘‘ والوں نے پی ٹی آئی کو اس دلدّر میں پڑنے ہی نہیں دیا۔
بھائی صاحب! آپ جو نتیجہ بھی اخذ کریں اور جو بھی پراپیگنڈا کریں‘ کشمیری عوام مقبوضہ کشمیر کے انتخابات کی طرح آزاد کشمیر کے انتخابات کا بائیکاٹ تو نہیں کرتے۔ ان انتخابات میں کسی پولنگ بوتھ اور پولنگ سٹیشن پر ہُو کا عالم تو نظر نہیں آتا‘ پولنگ کے دوران ووٹروں کو لانے کیلئے بھارت جیسے جبری ہتھکنڈے تو اختیار نہیں کئے جاتے اور انتخابات سے لاتعلق کشمیریوں کے مظاہرے اور مزاحمت روکنے کیلئے کرفیو اور لاک ڈائون کا سہارا تو نہیں لیا جاتا۔ اگر آزاد کشمیر کے عوام آزاد کشمیر کے انتخابات اور وہاں کی گورننس کے پراسس سے مطمئن ہیں اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہیں جس کا مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تو حضور! کشمیریوں کے پاکستان کیلئے نیک جذبات اور انکی پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے آمادگی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ پھر آپ کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا رکھنے اور اس کاز کیلئے طویل جدوجہد میں اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرنیوالے کشمیریوں کو پرے دھکیلنے کی کیوں سوجھ رہی ہے۔
مجھے ملک کے انتہائی ذمہ دار منصب پر فائز وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے اس اعلان پر سخت حیرت بھی ہوئی اور پریشانی و مایوسی بھی کہ ہم آزاد کشمیر میں دو ریفرنڈم کرائیں گے‘ ایک ریفرنڈم میں کشمیریوں سے پوچھا جائیگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ؟ اگر کشمیریوں کا فیصلہ اس ریفرنڈم میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں آیا تو پھر انہیں دوسرے ریفرنڈم کی آزمائش میں ڈالا جائیگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اپنی آزاد ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ گویا اس ریفرنڈم کے ذریعے کشمیریوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے کی سزا دی جائیگی اور انہیں حالات کے تھپیڑوں کی جانب دھکیلنے کی دانستہ کوشش کی جائیگی۔ اگر ہمارے کشمیری بھائی پھر بھی ’’ڈھیٹ‘‘ ثابت ہوئے اور انہوں نے دوسرے ریفرنڈم میں بھی پاکستان کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ دے دیا تو پھر انہیں اپنے سے دور دھکیلنے کا اور کیا حربہ اختیار کیا جائیگا؟ آپ نے پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں سے مشاورت کے بغیر اور بلاسوچے سمجھے ایک ایسی بات کردی جس سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا میں بے مثال جانی اور مالی قربانیاں دینے والے کشمیری عوام کا جدوجہد آزادی کا سارا سفر کھوٹا ہو سکتا ہے اور بھارت کو صرف کشمیریوں کو ہی نہیں‘ پاکستان کے دوسرے علاقوں بالخصوص بلوچستان میں علیحدگی کے خواب دیکھنے والے باشندوں کی بھی اس مقصد کیلئے مزید پیٹھ ٹھونکنے کا نادر موقع مل سکتا ہے جس کے بعد پاکستان کے یہ باشندے بھی ایسے ریفرنڈم کا تقاضا کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم کی یہ تجویز اول تو ویسے ہی ناقابل عمل ہے کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 21؍ اپریل 1948ء کی قرارداد نمبر 47 میں کشمیریوں کو پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق سے ہٹ کر کوئی تیسری آپشن دی ہی نہیں گئی جبکہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی روح کے مطابق استصواب کا اہتمام مقبوضہ کشمیر میں ہی ہونا ہے جس کے انتظامات پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے کرنے ہیں جسے اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کے نامزد کردہ ایڈمنسٹریٹر کا تقرر عمل میں لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اگر اس قرارداد کے تحت برصغیر میں آباد تمام کشمیریوں سے رائے لی جائیگی تو اس کیلئے ریفرنڈم صرف آزاد کشمیر میں کیونکر ہوگا جبکہ آزاد کشمیر میں مقیم کشمیریوں کو ایسے ریفرنڈم کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ تو پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے پر خوش اور مطمئن ہیں اور بطور شہری تمام حقوق و مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وہ کیوں اس بھارت کے ساتھ جائینگے جس نے اپنے زیرتسلط کشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے اور انہیں ہر قسم کی شہری آزادیوں سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر تو مقبوضہ وادی کے عوام بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں جن کی پاکستان کے ساتھ الحاق ہی اصل منزل ہے۔ ہم چہ جائیکہ مقبوضہ وادی کے کشمیری عوام کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے معاونت کریں‘ ہمیں آزاد کشمیر میں مطمئن بیٹھے کشمیریوں کو بھی پاکستان سے پرے دھکیلنے کی سوجھ رہی ہے۔ جناب! یہ کون سی سیاست ہے۔ انتخابی نعروں میں کم ازکم ملک کی بقاء و سلامتی اور قومی مفادات پر تو کوئی زد نہیں پڑنے دینی چاہیے۔ بیٹھے بٹھائے ایسی ’’شُرلی‘‘ چھوڑنے کا کیا فائدہ جس سے اپنے دامن کے ہی خاکستر ہونے کا اندیشہ ہو۔ سو پہلے بات کو تولیے‘ پھر بولیے۔
یہ کہاوت کئی تجربات کا نچوڑ ہے اور ایسی کہاوتیں یونہی نہیں بن جاتیں۔ اور جن پر یہ کہاوتیں صادق آتی ہیں ان کیلئے تو ’’موراوور‘‘ کی فضا بھی اس مشورے کے ساتھ بنائی گئی ہے کہ۔۔۔؎
پہلے بات کو تول او سائیں
پھر بھی نہ منہ سے بول او سائیں
٭…٭…٭