آزاد کشمیر الیکشن :روایت برقرار
کشمیر کے انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے موجودہ انتخابات میں بہت کچھ نیا تھا ماضی میں شاید ہی کبھی کشمیر میں اس قدر انتخابی گہما گہمی ہوئی ہو گی بلکہ ہم نے تو دیکھا ہے کہ کشمیر کے انتخابات وفاقی وزیر امور کشمیر کی مار ہوتے تھے۔ اسی طرح بڑی جماعتوں کی سیکنڈ کمانڈ کی لیڈر شپ سے زیادہ کی قیادت انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیتی تھی لیکن موجودہ انتخابات میں وزیراعظم عمران خان کو خود آذاد کشمیر جانا پڑا مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے مورچہ سنبھالا اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو بھی میدان میں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ آزاد کشمیر میں سیاسی درجہ حرارت بہت عروج پر رہا تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے ورکرز کو جذباتی کیا‘ الیکشن مہم کے دوران ہی ماحول بہت زیادہ کشیدہ ہو چکا تھا اور نظر آرہا تھا کہ تلخیاں حادثات کا موجب بن سکتی ہیں لیکن چند ایک واقعات کے علاوہ الیکشن پرامن رہے۔
چڑوئی کے علاقہ میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ورکرز کے درمیان تصادم میں تحریک انصاف کے 2 افراد جان کی بازی ہار گئے اسی طرح ایک دوسرے واقعہ میں 5 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ کوئیک رسپانس کیلئے بلوائے گئے فوجیوں کی گاڑی کھائی میں گرنے سے 4فوجی شہید ہو گئے۔ بعض مقامات پر ورکرز آپس میں دست وگریبان ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے امن و امان کیلئے 40 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے اور کسی بھی ناگہانی حالات سے نمٹنے کیلئے فوج بھی بلوائی گئی تھی لیکن فوج انتظامی معاملات سے دور ہی رہی کشمیر کے انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس بار بھی ووٹروں نے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وفاق میں برسر اقتدار جماعت کو ہی ووٹ دے کر کامیاب کروایا ہے۔ تحریک انصاف واضح کامیابی حاصل کر کے کشمیر میں تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ شاید پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو انتخابی مہم کے دوران اسکا ادراک ہو چکا تھا جب ن لیگ جو برسر اقتدار جماعت تھی اس کے امیدوار رسے تڑوا کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے تو انھیں اندازہ تھا کہ ہوا تحریک انصاف کے حق میں چل رہی ہے یہی حال پیپلزپارٹی کا تھا اسی وجہ سے بلاول انتخابی مہم راستے میں ہی چھوڑ کر امریکہ چلے گئے تھے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان دوسری پوزیشن کا مقابلہ تھا یہی وجہ تھی کہ دونوں جماعتیں محاذ آرائی کو ہوا دے رہی تھیں۔ ہمیں توقع تھی کہ مسلم لیگ ن دوسری پوزیشن پر آئیگی لیکن مسلم لیگ ن تو تیسری پوزیشن پر چلی گئی اور پیپلزپارٹی کی کارکردگی متاثر کن تھی۔ کشمیر کے لوگوں نے عمران خان کے مسئلہ کشمیر پر ٹھوس موقف کو بھی سراہا ہے اور انکی وکالت پر بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہارنے والی سیاسی جماعتیں نتائج کو تسلیم کرتی ہیں یا نہیں لیکن لگتا ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اپوزیشن موثر احتجاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔
ن لیگ اور پیپلزپارٹی گلگت بلتستان میں بھی احتجاج کر کے دیکھ چکی ہے۔ جب انتخابات کا بخار اترتا ہے تو لوگ کامیاب لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں ویسے بھی کہتے ہیں کہ کامیابی کا کریڈٹ لینے والے ہزاروں ہوتے ہیں جبکہ ناکامی کا داغ خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں شکست تسلیم کرنے کا نہ حوصلہ ہے نہ رواج ہے جو سات ووٹ لیتا ہے وہ بھی کہنا شروع کر دیتا ہے کہ مجھے دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا ہے اس لیے چند دنوں تک ہارنے والے خوب شور مچائیں گے پھر حالات نارملائز ہونا شروع ہو جائینگے۔ مسلم لیگ عبرتناک شکست کے بعد مایوسی میں چلی گئی ہے۔
پیپلزپارٹی زبانی کلامی احتجاج کریگی‘ مسلم لیگ کا مایوس ورکر باہر نہیں نکلے گا ‘تحریک انصاف پاکستان کے تین صوبوں، مرکز ، گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے بعد اب کشمیر میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن ڈیلیورنس کا معاملہ ابھی وہیں اٹکا پڑا ہے۔ عوام تاحال عمران خان پر اعتماد کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ عمران خان کب انکے حالات زندگی بدلتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے تین سال تو مایوس کن تھے لیکن چوتھے سال کے آغاز میں تحریک انصاف کی حکومت نے ایک بار پھر امیدیں بندھانا شروع کر دی ہیں۔ مختلف پروگراموں کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ابھی انقلاب نہیں آیا۔ عوام جس قدر تحریک انصاف پر اعتماد کر رہے ہیں اس قدر توقعات بھی وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کیلئے اب اگلا مرحلہ آزاد کشمیر میں وزیراعظم کا انتخاب ہے۔ وزارت عظمی کا ہما کس کے سر بیٹھتا ہے چند روز میں فیصلہ ہو جائیگا۔
سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان محمود وزارت عظمیٰ کے فیورٹ امیدوار ہیں لیکن عمران خان کوئی بھی سرپرائز دے سکتے ہیں۔ وہ کسی غیر نمایاں رکن کو وزیر اعظم نامزد کر سکتے ہیں۔ موجودہ انتخابات کی اچھی بات یہ بھی تھی کہ تحریک انصاف نے ایک عام آدمی رکشہ ڈرائیور کو ٹکٹ دیا جو کامیاب ہو گیا۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے اس سے سیاسی ورکرز کو حوصلہ ملے گا ورنہ ہمارے سسٹم میں اب الیکشن لڑنا خواص کامعاملہ رہ گیا ہے۔ تحریک انصاف کو جتنی بڑی کامیابی ملی ہے‘ ذمہ داریاں بھی اتنی بڑھ گئی ہیں ‘لوگ مسئلہ کشمیر پر کسی پیش رفت کے انتظار میں ہیں۔