دنیا کا سب سے بڑا پروڈکشن ہاوس چین ہے کرونا وائرس کی وجہ سے فروری 2020میں چین میں کارخانے بند ہونا شروع ہو گئے یعنی پروڈکشن میں کمی آئی لیکن مارچ میں پوری دنیا ہی لاک ڈائون ہو گئی خاص طور پر یورپ ،امریکہ اور ایشیاء چین نے کرونا پر تو قابو پا لیا لیکن چینی صنعت پھر بھی مکمل بحال نہ ہو سکی کیونکہ پوری دنیا میں ڈیمانڈ ہی ختم ہو گئی اس صورتحال کا سامنا جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان،ویت نام ،انڈونیشیا جیسے ممالک کو بھی کرنا پڑا یاد رہے کہ چین کے بعد یہ ممالک دنیا کی ضرورت پوری کرتے ہیں پوری دنیا میں تجارتی گوداموں میں کام رک گیا صرف خوراک سے متعلق اشیاء کا کاروبار اور تجارت ہوئی باقی ہر چیز کو بریک لگ گئی اب جب کرونا کے اثرات کم ہونا شروع ہوئے اور مارکیٹ میں خوراک کے علاوہ چیزوں کی ڈیمانڈ نکلی تو پتہ چلا طلب زیادہ ہے جبکہ اشیاء کم ہیں پاکستان میں جہاں ترکی ،جاپان اور تائیوان کی کراکری عام مل جاتی تھی اب امپورٹ نہ ہونے کی صورت میں کم مل رہی ہیں اور جو مل رہی ہیں اس کی قیمت بہت زیادہ ہے اسی طرح AC، فریج ،LED،گھریلو استعمال کی مشینری ،الیکٹرونکس ،الیکٹرک کا سامان سمیت امپورٹ ہونی والی 380اشیاء جس جس کے پاس پاکستان میں سٹور تھیں ان کے مزے ہو گئے اور ان کے چھکے چوکے لگ گئے اگر کہا جائے کہ کرونا لاک ڈائون اور کرونا سمارٹ لاک ڈائون جب پاکستان میں ہر کاروبار متاثر تھا امپورٹرز کے مزے ہو رہے تھے اور جو لوگ امپورٹ کی ہوئی چیزیں فروخت کرتے ہیں انہیں بھی بہت فائدہ ہوا چین سمیت کسی بھی جگہ سے اول تو کچھ آ نہیں رہا اگر آ رہا ہے تو بہت محدود اور گنا چنا ہے ایل سیز کینسل ہو گئیں پاکستان ایک زرعی معیشت کا حامل ملک ہے اور اللہ کے فضل کرم سے زمین نے انسان کو اجناس کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے کرونا سے ڈری ہوئی انسانیت کو سب سے زیادہ فکر خوراک کی تھی اس لئے تمام اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اب کچھ نارمل ہو رہا ہے لیکن ابھی بھی بہت کچھ اوپر ہی ہے پاکستان کی حکومت کے پاس 22کروڑ عوام کیلئے ایک سال کی گندم سٹاک ہے لیکن اس کے باوجود اس قدر افواہ سازی ہے کہ اوپن مارکیٹ میں گندم دو ہزار سے 2200روپے فی من ہو گئی ہے بے پناہ سختی کے باوجود ایران اور افغانستان گندم کی سمگلنگ جاری ہے ویسے اب ایران اور افغانستان تجارت کیلئے پاکستانی حکومت کو ایک مضبوط پالیسی بنا لینی چاہیے تاکہ اس میں غیر قانونی عنصر ختم ہو جائے اگر خوراک کے آئٹمز پر 100فیصد بھی ڈیوٹی لگا دی جائے تو اس سے کاروباری کو بھی فائدہ ہو گا جبکہ حکومت کے ریونیو کا حجم بھی بڑھ جائے گا کاروبار کو 100فیصد سے زیادہ خرچہ کر کے اور خوف کے سائے میں کام کرنا پڑتا ہے ایران اور افغانستان جانے والی اشیاء کی تجارت رک نہیں سکتی پاکستا ن کے تاجروں کا ایک اندازے کے مطابق 300سے400ارب روپے ادھار کا افغانستان کے تاجروں کے پاس ہر وقت رہتاہے جبکہ اسی طرح ایران کے تاجروں کے ساتھ بھی پاکستان کے تاجروں کا لین دین ہے پاک افغان سرحد پہلے بہت نرم ہوتی تھی اب سختی ہے لیکن اس کے باوجود تجارتی حجم کم ہونے کی بجائے بڑھ رہاہے امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے افغانی معیشت میں استحکام ہے جس سے پاکستانی روپیہ کے سامنے افغانی کرنسی طاقتور ہوئی ہے اور پاک افغان تجارت میں بھی اس سے اضافہ ہو رہاہے اور جیسے جیسے افغانستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہو گی پاک افغان تجارت بھی بڑھ جائے گی دوسری طرف پاک ایران تفتان بارڈرتو ایک رسمی سرحد ہے ایران پر امریکی پاپندیوں کا اطلاق بھی اسی سرحد پر ہوتاہے الیکن ایران اور پاکستان کے تاجروں کا کاروبار ان پاپندیوں سے بالاترہے کیونکہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا جادو سب کچھ کروا دیتا ہے ایران کا تیل اور موبل آئل پنجاب کے شہروں تک آتاہے جبکہ پاکستانی کپڑا اور دیگر اشیاء ایران کے ہر شہر میں فروخت ہو تی ہیں پاکستان سے میڈیسن بھی ایران اور افغانستان جاتی ہیں اب ان تمام چیزوں کو قانونی ہونا چاہیے کیونکہ اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی قومی آمدنی کو ہوتاہے اور فائدہ ان سرکاری ملازمین کو ہوتاہے جو ایک آنکھ بند کرتے ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کاٹن کو برصغیر میں مون سون مطلب برسات کئی حوالوں سے دل کے تار چھیڑ دیتی ہے جذبوں ،محبتوں ،چاہتوں کے رنگ برسات کے رنگوں سے ہمیشہ ہم رنگ رہے ہیں پاکستان میں کاٹن سیزن جو پہلے ستمبر میں شروع ہوتا تھا اب اس کا آغاز جون کے وسط میں ہوتاہے اور جولائی اور اگست جو مون سون کے دن ہوتے ہیں ان میں کاٹن کا کام کافی حد تک جاری ہوتاہے اور اس دفعہ ویسے بھی محکمہ موسمیات کی پیش گوئی ہے کہ رواں مون سون میں 20فیصد زائد بارشیں ہون گی گذشتہ تین روز میں سندھ اور پنجاب کے لگ بھگ ان تمام ایریاز میں ہلکی اور تیز بارش ہوئی ہے جہاں پھٹی کی چنائی ہو رہی ہے جس سے کاٹن کوالٹی پر اثرات نظر آ رہے ہیں آر ڈی 70کے اندر آگئی ہے کچھ جگہوں پر تو 67کی آواز بھی ہے سٹپل سندھ میں 1.05سے1.08تک بھی ہے جبکہ پنجاب میں پھر سٹپل مایوس کن ہی نظر آ رہی ہے ویسے بھی پنجاب کے 90فیصد کاشتکار موٹے بنولہ والا سیڈ تلاش کر کے بیجائی کرتے رہے ہیں اور موٹے بنولہ والے بیج کا سٹپل نہیں ہوتا اور ریسرچ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بھاری بنولے کی کھل بھی اچھی نہیں بنتی اور سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ بلوچستان میں بھی کاشتکاروں کی اکثریت موٹے بنولہ والا سیڈ تلاش کرتی نظر آئی تھی ملوں کی طرف سے محتاط خریداری جاری ہے کاٹن کے دھاگوں میں تیزی نہیں ہے لیکن پی سی یعنی کاٹن اور پولسٹر کے دھاگوں میں کچھ بہتری ہے اور سیل بھی ہے پاکستان میں کاٹن کی کھپت میں مسلسل کمی آ رہی ہے اگر فصل کم ہے تو کھپت بھی کم ہو رہی ہے جس کو تشویش ناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے کرونا کے بحران سے دنیا کو نکلتے نکلتے وقت لگے گا پاکستانی ٹیکسٹائل پروڈکشن کی سب سے بڑی ایکسپورٹ امریکہ کی ہوتی ہے جہاں کرونا نے اس وقت تباہی پھیلائی ہوئی ہے چین پاکستان سے کورس کاونٹ کے دھاگے لیتا ہے لیکن ابھی وہ بھی کم کم لے رہاہے ایسی صورتحال میں پاکستان کی ملوں کی کاٹن میں دلچسپی کم ہونا بنتی ہے کیونکہ بہت کچھ غیر واضح ہے اور ان حالات میں کوئی بھی مل جارحانہ خریداری نہیں کرے گی ایکسپورٹرز جو مقامی طور پر ٹریڈنگ بھی کرتے ہیں نے گذشتہ 15دنوں میں ایک بڑی خریداری سندھ میں کی ہے یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ مارکیٹ میں استحکام میں ایکسپورٹرز کا سب سے اہم کردار ہے اہم بار یہ ہے کہ دنیا میں گذشتہ دو ماہ سے ٹریڈنگ کمپنیوں نے زیادہ کاٹن خریدی ہے جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر نے کم خریداری کی ہے چین ،ترکی ،امریکہ اور انڈیا میں ملوں کی بجائے ٹریڈنگ والے کاٹن میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں کیا یہ کوئی غیر معمولی تیزی دیکھ رہے ہیں اس کی درست تصویر ستمبر میں نظر آئے گی کیونکہ ستمبر وہ ماہ ہے جب دنیا میں کاٹن پیدا کرنے والے تمام بڑے ممالک میں چنائی شروع ہو جاتی ہے مقامی مارکیٹ میں مون سون کا اثر رہے گا اور مستقبل قریب میں کوئی بڑی تیزی نظر نہیں آ رہی سندھ 8100سے8200درمیان ہے ا ور اس میں کوئی بڑی ردوبدل نظر نہیں آ رہی 25سے50کا اوپر نیچے ہو جانا اتنا اہم نہیں ہے پنجاب 8350سے8550ہے ممکن ہے پنجاب 100روپے کمزور ہو جائے جبکہ پھٹی کی قیمتوں میں بھی عید تک مندہ رہے گا اس وقت اگر کوئی فوری ادائیگی والی مل سندھ میں کچھ کمزور کوالٹی والی جینگ کاٹن جارحانہ انداز میں خریدے تو سندھ میں کاٹن کے دام کم دکھائی دیں گے جس طرح ملیں محتاط ہیں اسی طرح دھاگہ خریدنے والے بھی محتاط ہیں وہ بھی لمبے سودے نہیں کر رہے پاکستان میں کراپ سائز پر کافی تبصرے اور اندازے سامنے آ رہے ہیں جن کو قبل از وقت کہا جا سکتاہے مون سون کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ برسات فصل کو کیا دے گئی اور کیا لے گئی پاکستان میں آم اور کاٹن کے ایریا یکساں ہے اس وقت تو آم کا بھرپور سیزن ہے چونسہ کی خوشبو کاٹن ایریاز میں پھیلی ہوئی ہے جو کاٹن جنرز فیکٹریاں چلا رہے ہیں وہ لازمی منہ میٹھا کرنے کیلئے کام کھائیں کیونکہ ان کا آم سے منہ میٹھا کرنا بنتاہے ۔
اور اب آخر میں ایک شعر آپ سب دوستوں کی نظر
موسم کے تیور اچھے نہیں لگتے
دل والوں کی خدا خیر کرے
ختم شد۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024