پیر ‘5 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 27؍جولائی 2020ء
لاہور میں روٹی 10 اور پشاور میں 15 روپے کی ہو گئی
یہ سارا کمال فلور ملز مالکان اور مڈل مین مافیا کا ہے جنہوں نے کمال مہارت سے حکومت کی تمام رکاوٹوں کو بآسانی عبور کرتے ہوئے اپنا مقررہ ہدف حاصل کر لیا۔ اب حکومت لاکھ سخت تادیبی کارروائی کا ڈھول پیٹے۔ سرکاری ریٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے کا اعلان کرے۔ آٹا مافیا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ اس وقت پنجاب میں آٹے کا ریٹ کچھ اور ہے خیبر پی کے میں کچھ اور یہی حال سندھ اور بلوچستان میں ہے۔ بے لگام آٹا مافیا ہر صوبے میں من مانے ریٹ پر مال فراہم کر رہا جس کے نتیجہ میں روٹی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ غریب بے چارے تو روٹی خریدنے کی سکت سے محروم ہورہے ہیں۔ 6 روپے کی روٹی 10 تا 15 روپے میں فروخت ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ غریبوں کے دستر خوانوں سے روٹیاں سمٹتے سمٹتے غائب ہونے لگی ہیں۔ اب تو وہ بے چارے
کھائیں تو کھائیں کیا
سمجھے گا کون یہاں
درد بھرے دل کی زباں
کہتے ہوئے ملز مالکان مڈل مین اور تندور والوں کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ سابق صدر ایوب خان کے دور میں 20 روپے من آٹا ہونے پر ہر سو سناٹا چھا گیا تھا تو لوگ تڑپ اٹھے تھے۔ اب تو 20 روپے کی روٹی ہو رہی ہے خدا خیر کرے۔
٭٭٭٭٭٭
فروغ نسیم نے تیسری باروفاقی وزیر قانون کا منصب سنبھال لیا
خدا کرے یہ ہیٹ ٹرک مکمل ہونے پر وہ قانون کے فروغ کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں وقف کر دیں اس طرح ملک میں قانون کی جے جے کار ہونے لگے گی۔ لوگوں کو انصاف ملے گا اور ہر طرف قانون کا بول بالا ہو گا اور مجرموں کا منہ کالا ہو گا۔ گرچہ یہ سب ہونا محال ہے مگر اُمید پہ دنیا قائم ہے اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی بھی نہیں۔ دو بار انہیں وزارت سے ہٹایا گیا یا محروم وزارت کیا گیا۔ اب تیسری بار انہیں پھر وزیر قانون بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ؎
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
اب بھی حکمرانوں کو امید ہے کہ فروغ نسیم وہ شخصیت ہیں جو قانون کے فروغ کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور حکمرانوں کی خواہش پوری ہو۔ اب کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں بااثر لوگوں اور طبقوں نے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے۔ جب چاہے یہ لوگ اسے اپنی مرضی سے جہاں چاہیں موڑ لیتے ہیں۔ اگر قانون موم کی ناک کی بجائے فولادی مکا بن کر قانون توڑنے والوں کے جبڑے توڑے تو بہت جلدملک میں قانون کا دور دورہ ہو جائے گا۔ ملک میں امن و سکون کی بادنسیم چلنے سے ہر طرف انصاف کے پھول کھلیںگے اور کشت ویراں میں بہار آئے گی…
٭٭٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن کے بھائی ڈی سی کراچی سنٹرل تعینات
ویسے تو یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ مگر مولانا فضل الرحمن کے برادر کے اس رتبے پر فائز ہونے سے لوگوں خاص طور پر سیاسی حاسدین کے دلوں میں چھپے ہوئے بے شمار سوالات ان کی زبانوں پر آ گئے ہیں۔ وفاقی وزیر گنڈا پور صاحب نے تو ان کی اعلیٰ سول سروس میں پوسٹنگ اور بھرتی پر ہی بے شمار سوالات ایک ہی سانس میں کر ڈالے ہیں۔ اب جن کو پتہ بھی نہیں تھا وہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اعلیٰ سول سروس کا امتحان پاس کئے بغیر ان کی تقرری کب کیسے اور کہاں ہوئی۔ اصل بات کیا ہے۔ یہ تو خدا جانے مگر لوگوں کی زبان اب کون روکے۔ جے یو آئی کے رہنما جواب میں بہت کچھ کہہ رہے ہیں اور علی امین گنڈا پور اپنے سوال پر مسکرا رہے ہیں کہ ضیا الرحمن بنا کسی ٹیسٹ کے اور میرٹ کے کس قانون کے تحت سول سروس میں بھرتی ہوئے۔ جواب میں سندھ کے وزیر اطلاعات کہہ رہے ہیں کہ ضیاء الرحمن خیبر پی کے میں بھی انتظامی عہدوں پرکام کرتے رہے ہیں۔ اب جے یو آئی ، پیپلز پارٹی والے ان کی تقرری کا دفاع کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی والے ہیں کہ دھڑا دھڑ سوالات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ویسے ہی خلقت شہر تو سننے کو فسانے مانگنے کی شوقین ہے۔ اس لئے وہ کچھ بھی سن رہے ہیں جو کسی کے علم میں وہم و گمان میں نہیں تھا۔ ضیا الرحمن ڈی سی کراچی سنٹرل سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کی اس صورتحال پر دم بخود ہوں گے…ایم کیو ایم والوں نے بھی ان کی تقرری مسترد کر دی ہے۔ بھلا ان کو اس کا اختیار کس نے دیا ہے…
٭٭٭٭٭
بھارت کے سب سے بڑی قرنطنیہ مرگز میں 14 سالہ لڑکی سے دوسرے مریض کی زیادتی
یہ ہے بھارت دارالحکومت دہلی میں مہان بھارت کا نمونہ ویسے جب امیت شا جیسا بدنام جرائم پیشہ شخص ملک کاوزیر داخلہ ہو گا جو خود مجرموں اور جرائم پیشہ افراد اور ان کے گروہوں کی سرپرستی کرتا ہو تو اس قسم کے واقعات اور سانحات بھارت میں ہوتے رہیں گے۔ لوگ کرونا سے مر رہے ہیں مگر ان کی حیوانیت پر ختم نہیں ہو رہی ۔ کس قدر شرم کی بات ہے قرنطینہ سنٹر میں جہاں سینکڑوں افراد موجود ہوں ایسی گھنائونی واردات ہو اور کوئی بدبخت اس کی ویڈیو بھی بنا رہا ہو۔ مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہنے والا ۔ اس قتل عام میں ملوث غنڈوں کی سرپرستی کرنے والا امیت شا کیا ان درندوں کی بھی حمایت کرے گا جو اب تک کرتا آیا ہے۔ بھارت کے گلی کوچوں میں بسوں، ٹرینوں میں اس قسم کے سینکڑوں واقعات روزانہ ہوتے ہیں…وحشی درندے کم عمر لڑکیوں سے لے کر ادھیڑ عمر خواتین تک کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ مگر بے شرم وزیر داخلہ کو شرم نہیں آتی۔ سڑکوں پر خواتین اور لبرل سوسائٹی والے آئے روز اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں مگر کیا مجال ہے جو وزیر کے کان پر جوں تک رینگے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں جن تین اشخاص کو آئے روز لتاڑا جاتا ہے وہ وزیر اعظم مودی ، وزیر داخلہ امیت شا اور گجرات کا وزیر اعلیٰ یوگی ہے۔ یہ تینوں برائی کے سمبل قرار پا چکے ہیں۔ مگر انتہا پسند ہندو توا کی آڑ میں یہ اپنی جانیں بچائے ہوئے ہیں…
٭٭٭٭٭٭