سردار عبدالقیوم ایک زمیندار تھے اور خود بھی دوسری جنگ عظیم میں شامل رہے تھے انہوں نے باغ میں اپنے ساتھیوں کو منظم کیا اور راجہ کی فوج پر پہلی گولی 23اگست کو چلائی اس لیے ان کو مجاہد اول بھی کہا جا تا ہے سردار ابراہیم جن کا تعلق پونچھ سے تھا اور سرینگر میں وکالت کرتے تھے۔ وہ ریاست کی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو چکے تھے انہوں نے پونچھ آکر مسلح نوجوانوں کو منظم کیا اور تقریباََ 50ہزار افراد پر مشتمل ،آزاد آرمی ،تیار کر لی۔اس آزاد آرمی نے راجہ کی آرمی کو پے در پے شکست دینا شروع کی اور پونچھ اور اس سے ملحقہ جموں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔ریاست میں یہ حالات دیکھ کرپاکستان کے قبائلی علاقوں سے مسلح افراد مدد کو آنے لگے اور انہوں نے آزاد آرمی کے ساتھ مل کر مظفرا ٓباد پر قبضہ کر لیا اور سرینگر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔22اکتوبر کو راجہ کی فوج کے بہت سے مسلمان فوجی آزاد آرمی سے آن ملے اور انہوں نے ڈومل کے کے مقام پر جہلم دریا کے پل پر قبضہ کر کے آزا دآرمی کے آگے جانے کاراستہ کھول دیا ۔24اکتوبر کو سردار ابراہیم نے پلندری کے مقام پر آزادکشمیر حکومت بنانے کا اعلان کر دیا اورخود اس کے صدر بن گئے گلگت جو کہ تقریباََ 100%مسلمان علاقہ تھا اور اس کا کنٹرول گلگت سکائوٹ کے پاس تھا جو کہ راجہ کے خلاف بغاوت کر چکے تھے ۔ان حالات میں راجہ ہر ی سنگھ اپنے دارالخلافہ سرینگر سے تحت و تاج چھوڑ کر مال و دولت اور خاندان کے ہمراہ جموں فرار ہو جاتا ہے اور ہندوستان کو مدد کی درخواست کرتا ہے ۔ہندوستان مدد کے لیے شرط رکھتا ہے کہ پہلے الحاق کے کاغذات پر دستخط کرو۔اسطرح زبردستی دستخط کروانے کے بعد ہندوستان اپنی فوجیں 27اکتوبر کو ہوئی جہازوں کے ذریعے سرینگر میں اتار دیتا ہے ۔ہندوستان کا موقف ہے کہ راجہ کے الحاق کے بعد ریاست جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ بن گئی اور ہندوستان کی فوجیں ہندوستان کی زمین کے دفاع میں وہاں آئیں جبکہ پاکستان سے آنے والے قبائلی جارح تھے اور ہندوستان پر حملہ آور ہوئے ۔اصل صورتحال یہ ہے کہ راجہ وادی کشمیر چھوڑ کر جموں بھاگ چکا تھا۔گلگت پر راجہ کا کوئی کنٹرول نہیںتھا۔پونچھ سے جموں کے کچھ علاقوں اورمظفرا ٓباد میںآزاد کشمیر کی حکومت قائم ہو چکی اس صورت میں راجہ الحاق تو ان ہی علاقوں کا کر سکتا ہے جن پر اس کا قبضہ تھا یعنی جموں اور لداخ پوری ریاست کا نہیں ۔ہندوستان کی فوج کے سرینگر اترنے کے بعد قائد اعظم نے پاکستان فوج کے انگریز سربراہ جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیتے ہیں تو انکار کر دیتاہے لیکن آزاد آرمی اور جنگجوقبائل لڑائی جاری رکھتے ہیں ۔مئی 1948میں جنرل گریسی پاکستان کی فوج کو کشمیر جانے کی اجازت دیتا ہے جنوری 1949میں جنگ بندی تک سارے محاذ پر لڑائی جاری رہتی ہے کبھی پاکستان کا پلڑا بھاری ہوتا ہے اور کبھی ہندوستان کا …جنگ بندی کے وقت گلگت بلتستان میں گلگت سکائوٹ قبضہ کر کے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر چکے تھے جبکہ مظفرآباد میں آزاد کشمیر کی حکومت قائم ہو گئی جس میں مظفرا ٓباد کے علاوہ پونچھ جاگیر کے علاقے پونچھ اور باغ اور جموں کے علاقے میر پور اور کوٹلی شامل ہیں ۔جموں کا بڑا علاقہ وادی کشمیر اور لداخ ہندوستان کے قبضہ میں ہے ۔آزادکشمیر حکومت کا موقف ہے کہ آزاد کشمیر ایک بیس کیمپ ہے جس کا مقصد بقیہ کشمیر کو ہندوستان سے آزاد کر وا کے پاکستان میں شامل ہونا ہے (ڈاکٹر محمد مظہر قیوم 0333-5408844
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024