امام صحافت جناب مجید نظامی کی برسی گزری ہے۔ ہم ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی برسی کے اگلے روز سائرن میں انہیں یاد کیا جائے۔ آبروئے صحافت کی خدمات سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انہوں نے لگ بھگ پانچ دہائیوں تک ملکی صحافت پر راج کیا ہے۔ ہزاروں صحافیوں نے نوائے وقت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور آج کامیاب زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کی سرپرستی، نگرانی و رہنمائی میں ملکی تعمیر میں میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ زندگی بھر ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے کوششیں کرتے رہے۔ ان کی زندگی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے افکار کو نوجوانوں تک پہنچانے، نظریہ پاکستان، تحریک پاکستان کے کارکنوں کی خدمات کو اجاگر کرنے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ہر فورم پر زندہ رکھنے میں گذری ہے۔ وہ زندگی بھر مسلم لیگوں کو متحد کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ بعض معاملات پر میاں نواز شریف سے اختلافات کے باوجود مسلم لیگ کے بہتر مستقبل کے لیے وہ ان کی حمایت کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے چودھری برادران اور مسلم لیگ کی تمام شاخوں کو متحد کرنے کی کئی کوششیں کیں۔ سنجیدہ کوششوں کے باوجود وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب یہ ذمہ داری مسلم لیگی دھڑوں کی ہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں متحد ہو جائیں۔ کشمیر کی آزادی کے لیے جس دلیری کے ساتھ وہ اپنا موقف بیان کرتے تھے ایسی جرات تو حکمرانوں کو بھی نصیب نہیں۔ کشمیر کے معاملے میں وہ کوئی دلیل سننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ اگر کشمیری مجاہدین بھارتی فوج کا مقابلہ کر رہے ہوتے تھے تو مجید نظامی دنیا کے سامنے ان کا مقدمہ ایک بہادر سپاہی کی طرح ہی لڑتے رہے ہیں۔ ان کے بعد اس محاذ پر ایک خلا پیدا ہوا ہے جو کبھی پورا نہ ہو سکے۔ جب انہیں پنجاب یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا تو ہم نے ان کے سامنے ایک تجویز رکھی تھی کہ آپ نے ہزاروں صحافیوں کی تربیت کی ہے لیکن بدقسمتی سے سیاست دان جنہوں نے ملک چلانا ہوتا ہے وہ بغیر کسی تربیت کے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اس ناتجربہ کاری کے باعث ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ سیاست دانوں کی تربیت کے لیے ادارے بھی قائم ہونے چاہییں اور اس مقصد کے لیے بلدیاتی نظام کو مضبوط بنا کر باصلاحیت کونسلرز کو آگے لانے کا انتظام کیا جائے۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا ہونا لازم ہے۔ جب تک جماعتوں میں جمہوری روایات مضبوط نہیں ہونگی ملک میں حقیقی جمہوریت کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی۔ وہ اپنی رائے دینے میں کبھی گھبراتے نہیں تھے۔ ملک کے حکمرانوں کے سامنے بھی انہوں نے یہ روایت برقرار رکھی۔ انہوں نے نظریہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل شاہد رشید کے حوالے سے کہا کہ مجھے تو اعزازی ڈگری دے دی گئی ہے لیکن شاہد رشید نے بھی بہت کام کیا ہے۔ ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور آج کے صحافیوں کو ان جیسی جرات اور فکر عطاء فرمائے۔ آمین
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اراکین کا ذکر درحقیقت سیاسی کارکنوں کی خدمات کو یاد کرنا ہے۔ اس کا مقصد نئے آنے والوں میں سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لیے ابھارنا ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کا طرز عمل سیاسی کارکنوں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے کیونکہ آج بانی اراکین کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی بقاء بانی اراکین کے ساتھ ہی ہے۔ یہ لوگ جماعت کی بنیاد ہوتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں جماعت کو نچلی سطح پر متحرک اور زندہ رکھتے ہیں اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے بانی اور نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ بانی و نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کرنے کا مطلب بنیادوں کو کمزور کرنا ہے۔ بنیادیں کمزور ہونے کا مطلب تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بانی اراکین کو یاد کرتے ہیں تو فاروق اعوان بھی ان باہمت، محنتی اور بے لوث افراد میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ جس دور میں پی ٹی آئی کے پاس صدر دفتر چلانے کے فنڈز بھی نہیں ہوتے تھے اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی بھی مسئلہ بن جاتی تھی فاروق اعوان ان دنوں کی یاد ہیں۔ انہوں نے کھلے دل کے ساتھ تمام مسائل کا سامنا کیا۔ مقابلہ کیا اور خود کو پی ٹی آئی کے لیے وقف کر دیا۔وہ تحریک انصاف کے اپر مال پر واقع دفتر کے پہلے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ فاروق اعوان کوئی سیاسی کارکن نہیں تھے نہ اس سے پہلے ان کی کوئی سیاسی وابستگی کا سیاسی پس منظر تھا۔ وہ عمران خان کے ساتھ جنون کی حد تک جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔ ان کے دل و دماغ میں عمران خان دوڑتا تھا۔ شوکت خانم کے لیے بھی فاروق اعوان نے بہت محنت کی اس دور کے لوگ جانتے ہیں وہ دیوانہ وار تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے مشکل وقت میں پی ٹی آئی کی ذمہ داریاں ناصرف اٹھائیں بلکہ انہیں نبھایا۔ عمران خان کی جماعت کے لیے ترانے لکھے، ترانے گائے۔ ان کے جلسوں کی میزبانی کی، عمران کی سیاسی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے امریکہ چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ بلا معاوضہ خدمات انجام دیتے دیتے ایک موقع ایسا آیا جب انہیں برسوں کی ریاضت کی ناقدری کا احساس ہوا تو امریکہ واپس چلے گئے۔ اپر مال پر واقع پی ٹی آئی کے دفتر میں فاروق اعوان کے ساتھ محمد ناظم، راجہ وقار اللہ اور منصور صدیقی ابتدائی طور پر جماعت کے انتظامی معاملات کی نگرانی کرتے تھے۔ مرکزی دفتر اس کے روزمرہ کے کام، جماعت کی سرگرمیوں دفتر دورہ کرنے والوں کے ساتھ ملاقاتیں انکی دیکھ بھال اور اخراجات سب معاملات یہی چار لوگ ذمہ دار تھے۔ آج فاروق اعوان کہاں ہیں نہ پی ٹی آئی کو ان کی خبر ہے نہ ان کے چیئرمین جانتے ہیں کہ ان کے بنیادی اراکین کہاں ہیں اور کس حال ہیں، وہ کیوں چھوڑ گئے، وہ کیوں ناراض ہوئے، انہوں نے اپنے راستے کیوں جدا کر لیے کوئی پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔ پی ٹی آئی نے بھی کبھی ان کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے بڑی کیا بدقسمتی ہو گی کی پاکستان تحریک انصاف کو اس کے بانی اراکین کی ہی خبر نہیں ہے۔ وہ صرف اس انتقام میں سانسیں لے رہے ہیں کہ کون کب چھوڑ گیا کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ کون کیوں چھوڑ گیا۔ اگر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون کب اور کیوں چھوڑ گیا تو پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ بانی اراکین کی محبت میں کوئی کمی آئی یا پھر نئے آنے والوں نے پرانے کارکنوں کے لیے رکنا مشکل کر دیا۔ فاروق اعوان تو آج بھی عمران خان سے محبت کرتے ہیں لیکن کیا پی ٹی آئی کے چیئرمین کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے بھی پوچھ لیں جنہوں اپنا سب کچھ عمران خان کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے لٹایا ہے۔
سیاح عبدالرحمن پالوا نے بلوچستان کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ انہوں نے تفریح کے شمالی علاقوں کا رخ کرنے والوں کو بلوچستان دیکھنے کی ترغیب بھی دی ہے۔عبدالرحمن نے سائیکل پر بلوچستان کی سیر کی ہے یہ ان کا وطن سے محبت کا منفرد انداز ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے بلوچستان پر توجہ ہی نہیں دی گئی یہ علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں زیر زمین ذخائر کی سب کو فکر رہتی ہے لیکن بلوچستان کو بہتر بنانے کے لیے آج تک کچھ نہیں کیا گیا۔ بلوچستان سیاحت کا بہت بڑا مرکز بن سکتا ہے لیکن اس کی ترقی پر توجہ کون دے گا۔ یہاں قدرتی مناظر کی کوئی کمی نہیں، بہترین موسم، سیاحت کے لیے بہترین مناظر ہیں۔ بہت سے بلوچی سوئٹزرلینڈ جاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ ہمیں یہاں اپنے دیس جیسی خوبصورتی نظر آتی ہے لیکن تعمیر و ترقی اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ بلوچستان کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے ہموطنوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں ہم ان کی دیکھ بھال کریں گے اور انہیں بہترین سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ عبدالقدوس بزنجو بلوچستان سے قومی سطح کے سیاست دان کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں وہ اتحاد کی بات کرتے ہیں اور ایک پاکستان کے فلسفے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ عبدالرحمان جیسے سیاحوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کریں۔ وفاقی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان پر توجہ دے۔ عبدالقدوس جیسے محب وطن سیاست دانوں کا وقت نہایت قیمتی ہے جب وہ خود دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں تو پھر وفاق کو بھی ان کے جائز مطالبات پر توجہ دینی چاہیے ناصرف توجہ بلکہ تمام جائز مطالبات کو فوری طور پر پورا کرنا چاہیے۔
عاصم سلیم باجوہ سی پیک پر اچھا کام کر رہے ہیں انہوں نے جنوبی بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی خیالات کا اظہار کیا ہے امید ہے کہ یہ تمام منصوبے بروقت مکمل ہوں گے اور بلوچستان کے لوگوں کو بھی ان منصوبوں سے فائدہ ہو گا۔ اصل سٹیک ہولڈرز مقامی لوگ ہیں انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہیں اس کا جواب بھی ضرور دینا چاہیے بلکہ وضاحت دینی چاہیے کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ جب آپ اہم عہدے پر ہیں اور اثاثوں کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں تو انہیں دور کرنا بنیادی ذمہ داری ہے۔
چودھری شجاعت حسین نے نیب کی کارکردگی کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا ہے انہیں نیب کے صفر لگانے پر اعتراض ہے۔ چودھری برادران اور نیب کے مابین اختلافات باہمی معاملہ معلوم ہوتا ہے اس کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ یا تو چودھری برادران نیب کو مطمئن کر دیں یا پھر نیب چودھری برادران کو مطمئن کر لیں ایسا نہیں ہوتا تو پھر دونوں ایسے ہی چلتے رہیں گے۔
میاں شہباز شریف نئے انتخابات کے لیے دباؤ بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ اس خواہش کے لیے سب سے پہلے انہیں عملی طور پر میدان میں آنا ہو گا۔ دعا ہے کہ جلد وہ مکمل صحتیاب ہو کر سیاسی سرگرمیاں شروع کریں کیونکہ انہوں نے دباؤ بنانا ہے تو خود بھی ٹھنڈے کمرے سے نکلنا ہو گا اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ویڈیو لنک پر دباؤ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ن لیگ کے ووٹرز اپنی قیادت کو ڈھونڈ رہے ہیں اور قیادت ٹھنڈے کمروں میں اجلاس کر کے وقت گذارنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ میاں صاحب باہر نکلیں اپنے ووٹرز کو تسلی دیں ان کی رہنمائی کریں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024