میلہ مویشیاں میں بہت سی گائے، بھینسیں فروخت کے لیے لائی گئی تھیں۔ ایک آدمی جو اچھی بھینس خریدنے کا ارادہ لے کر آیا تھا، ایک کسان کے پاس پہنچا جس کے پاس عمدہ جانوروں کی جوڑی تھی۔ گاہک کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ دونوں میں سے کسے خریدے۔ آخر اس نے ان میں سے ایک کی قیمت کسان سے پوچھی۔‘‘ اس کی قیمت پانچ ہزار ہے۔ بچھڑا بھی ساتھ ہے اور روزانہ 10لیٹر دودھ بھی دیتی ہے۔‘‘ گاہک کے خیال میں قیمت زیادہ تھی۔ اس نے دوسری بھینس کے متعلق پوچھا۔’’ اس کی قیمت دس ہزار ہے۔ ابھی نئی ہونے والی ہے۔ نہ دودھ نہ بچھڑا۔ ‘‘ گاہک کو تعجب ہوا:’’ اس کے سینگ سونے کے ہیں جو دس ہزار مانگ رہے ہو؟ دودھ دینے والی بچھڑے سمیت پانچ ہزار کی اور دودھ نہ دینے والی بھینس دس ہزار کی۔ یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ کسان نے گاہک کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے اور اپنے دس ہزارکے مطالبے پر قائم رہتے ہوئے کہا:’’ جناب کردار بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔‘‘
یہی صورت حال ہے تحریک انصاف کی حکومت کی، جسے الیکشن کامیابی سمیٹے ایک سال مکمل ہو گیا لیکن اب بھی کارکردگی یا حساب کی بات کی جائے تو اس کے حامیوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ کپتان کرپٹ تو نہیں ہے ناں۔
تحریک انصاف دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن منشور میں کئی معاشی وعدے کرکے آئی۔ سب سے بڑا دعویٰ تو قرضے نہ لینے کا تھا۔ حکومت بنانے کے بعد تحریک انصاف اس دعوے کی وجہ سے آئی ایم ایف سے رجوع کے معاملے پر گومگو کا شکار رہی۔ بالاخر قرض لینے کا فیصلہ کیا اور ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ پی ٹی آئی حکومت نے 13 ارب 60 کروڑ ڈالر قرض لیا۔ ایک سال میں پاکستانی روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی آئی ، ڈالر کی قیمت جو 110 روپے تھی ایک سال میں 160 روپے تک پہنچ گئی۔
آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے اس کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائی گئیں۔ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ پورا کرنے کے لیے درکار معاشی ترقی کی طرف ابھی تک کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہو پائی۔ پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ ہوا لیکن اس بجٹ میں اس کے لیے کچھ بھی مختص نہیں ہوا اور یہ بھی واضح نہیں کہ اس منصوبے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔
عمران خان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں دی گئی ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کو چوروں کے لیے کالادھن سفید قرار دینے کا منصوبہ رار دیا۔ اپنی حکومت کے پہلے ہی سال خود نہ صرف یہ سکیم متعارف کرائی بلکہ اہداف حاصل نہ ہونے پر قوم سے خطاب کئے اور توسیع بھی دی جاتی رہی۔ ٹیکس ڈھانچہ درست کرنے کے لیے اقدامات کا وعدہ تو ہوا لیکن تاجر طبقہ اس پر سراپا احتجاج ہے اور حکومت کو مزاحمت کا سامنا ہے، جبکہ براہ راست ٹیکسوں کی بجائے جی ایس ٹی پر زور لگا کر سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ کپتان کہتے تھے جب حکمران چور ہوں تو کوئی ٹیکس نہیں دیتا، حکمران ایمان دار ہوں تو لوگ خوشی خوشی ٹیکس دیں گے۔ کپتان کا فارمولہ کہیں یا خوش فہمی، آج بھی ٹیکسوں کی ادائیگی کا اوسط فی کس رجحان ناامید کر دینے کی حد تک کم ہے۔
صنعتوں کی بحالی کا وعدہ کرنے والی حکومت کے پہلے سال کے اختتام پر بڑے صنعتی شہر فیصل آباد میں سیکڑوں یونٹ بند پڑے ہیں۔ ایک سال کے دوران ایک وفاقی بجٹ اور دو منی بجٹ بھی لائے گئے لیکن اقتصادی ابتری کو قابو نہ کیا جا سکا۔ افراط زر کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح 9 فیصد سے زائد ہے۔ پہلے سال کوئی بڑی معاشی کامیابی نہ ملنے پر حکومت کو وزیر خزانہ کی قربانی دینا پڑی۔
تمام حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے سیاسی ماحول کو گرم نہ ہونے دیں لیکن اس حکومت کی پوری کوشش سیاسی محاذ گرم رکھنے پر ہے تاکہ میڈیا اور عوام کی توجہ ان کی کارکردگی کی طرف نہ جائے۔ اس ایک سال کے دوران عمران خان نے ملک کے سیاسی ماحول کو انتخابی ماحول سے باہر نہیں آنے دیا۔ شدید تنقید کے ماحول کو قائم رکھا گیا اور ملک میں سیاسی تفریق کو بڑھاوا ملا۔اس حکومت کی البتہ یہ کامیابی ہے کہ ابھی تک اپوزیشن کوئی تحریک منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ سفارتی اور بین الاقوامی حوالے اس حکومت کا سب سے بڑا امتحان فروری میں بھارت کے ساتھ کشیدگی تھی۔ اس موقع پر پوری قوم بھارت کی جارحیت کے خلاف متحد نظر آئی۔ بھارت کو جارحیت کامنہ توڑ جواب دیا گیا۔ ایک طیارہ مار گرانے کے ساتھ بھارتی پائلٹ گرفتار ہوا۔ امریکی مداخلت پر کشیدگی میں کمی آئی لیکن اب تک تعلقات کشیدہ ہیں۔عمران خان نے سعودی عرب، ایران، قطر، متحدہ عرب امارات ، ملائیشیا اور چین کے دورے کیے جبکہ کئی اہم شخصیات نے پاکستان کا دورہ کیا ، ان تمام دوروں کا مرکزی نکتہ قرض اور ادھار تیل ہی رہا۔ سعودی عرب کی طرف سے بیس ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان ہوا۔ تین ارب ڈالر بھی دیے گئے جبکہ اب تین سال کی موخر ادائیگی پر تیل کی سپلائی بھی جاری ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بلیک لسٹ ہونے کا خدشہ تھا لیکن ترکی اور سعودی عرب کی مدد سے اس مشکل سے نکلنے میں کامیاب رہے، یہ خطرہ اب بھی سر پر لٹک رہا ہے۔ امریکا کے دورے میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات خلاف توقع اچھی رہی اور ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا بیان دے کر مودی کو مشکل میں ڈال دیا۔ کشمیر پر امریکی صدر کے بیان سے مسئلہ ایک بار پھر اجاگر ہوا، اس حوالے سے اسے بھی کامیابی کہا جا سکتا ہے۔ دورہ امریکا میں مالی امداد کی بحالی ممکن نہ ہو سکی،سرمایہ کاری کے کسی معاہدے یا مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط نہ ہوئے لیکن امریکی میڈیا کے ساتھ دوٹوک گفتگو پر تحریک انصاف جشن منا رہی ہے۔
ملک میں میڈیا پر ایک مشکل دور ہے۔ امریکی صدر اور وزیراعظم عمران خان اپنی ملاقات کے موقع پر میڈیا کا شکوہ کرتے نظر آئے۔حکومت نے ابتدا میں میڈیا سے براہ راست جھگڑا مول لیا، وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا کو کاروباری ماڈل سمجھانے کی کوشش کی۔ اب فردوس عاشق اعوان مشیر اطلاعات ہیں لیکن حالات کچھ زیادہ نہیں بدلے۔
تحریک انصاف حکومت کی سب سے بڑی کامیابی اس کے لیے اداروں کی حمایت میں اضافہ ہے۔ اپوزیشن اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اب تک بہتر نہیں بنا سکی بلکہ یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن خود دروازے بند کر رہی ہے۔ اداروں کی طرف سے حمایت اور ایک پیج پر ہونے کا تاثر تحریک انصاف کی کئی کمزوریوں کو چھپا کر عوام کی نظر میں حکومت کا مثبت تاثر برقرار رکھے ہوئے ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024