کلبھوشن سدھیر یادیو 3مارچ 2016 کو بلوچستان میں گرفتار ہوا۔ پاکستان کے مطابق کلبھوش بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے اور اب بھارتی خفیہ ایجنسی RAW کے لیے کام کرتا ہے، جبکہ بھارتی حکومت کا موقف تھا کہ کلبھوشن بھارتی نیوی سے ریٹائیر ہو کر ایران میںذاتی بزنس کر رہا تھا اور بھارتی سرکار کااب اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ در حقیقت کلبھوشن بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر کی حیثیت سے بلوچستان اور کراچی میں پاکستان کی سلامتی کیخلاف سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اس نے اپنے اقبالی بیان میں یہ بھی تسلیم کیا کہ اس نے ایران میں کچھ کشتیاں بھی خریدی تھیں جن کی مدد سے وہ کراچی اور گوادر میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتا تھا کیونکہ سندھ ا ور بلوچستان میں کاروائی کے علاوہ اسے خاص طور پر CPEC کو نشانہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ جنوری 2019 میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ ’’ وکرم سود‘‘ نے کہا کہ کلبھوشن کے رینک کا کوئی افسر اپنے پاسپورٹ سمیت پکڑا ہی نہیں جا سکتا اس لیے پاکستان اس بارے میں جو دعویٰ کر رہا ہے وہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ مسٹر وکرم کا یہ بیان خود بتا رہا ہے کہ کلبھوشن کو پاسپورٹ اور تمام ثبوتوں سمیت پکڑنا پاکستانی ایجنسیوں کی کتنی بڑی کامیابی ہے ۔ بہر کیف کلبھوشن پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا یا گیا جس کے نتیجے میں اسے 10 ا پریل 2017 پاکستان کے قانون کے مطابق سزائے موت سنا دی گئی۔ 11 اپریل 2017 کو بھارت کے اس وقت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنی پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا کہ کلبھوشن کو پاکستانی ایجنسیوں نے ایران سے اغوا کیا تھا اور اس پر لگائے گئے باقی تمام الزامات جھوٹ ہیں۔ مئی 2017 میں بھارت پاکستان کے خلاف اور کلبھوشن کی رہائی کے لیے ’’ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس‘‘ میں چلا گیا ۔ عالمی عدالت انصاف میں بھارت نے کلبھوشن کے لیے ’’ کونسلر رسائی‘‘ مانگنے کے علاوہ یہ مطالبات کیے کہ پاکستانی ملٹری کورٹ کی جانب سے کلبھوشن کو دی جانے والی سزائے موت کو کالعدم قرار دے کر کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کرنے کا حکم دیا جائے۔
اس مقدمہ کا فیصلہ حال ہی میں سنایا گیا ہے اور باوجود اس کے کہ اس فیصلے میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ہے انڈین میڈیا ہمیشہ کی طرح جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بتاتے ہوئے اس فیصلے کو بھارت کی فتح بیان کر رہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بھارتی عوام نے اس فیصلے کے بعد ممبئی کی سڑکوں پر جشن بھی منایا۔ بھارت کے عوام اور میڈیا تک بات رہتی تو کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کیونکہ انکا تو شروع سے وتیرہ ہی یہ ہے کہ ’’ کوا سفید ہوتا ہے‘‘ ۔ سب سے مزا بھارت کے ’’ دانشور اور عالم فاضل‘‘ وزیر اعظم جناب مودی کا ٹوئیٹ پڑھ کر آیا جس میں انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں ’’ سچ اور انصاف‘‘ کی فتح ہوئی ہے۔ معلوم نہیں انکے یہ ٹوئیٹ کرنے کہ وجہ یہ تھی کہ عالمی عدالت انصاف نے اپنا فیصلہ انگلش زبان میں سنایا تھا اور ٹوئیٹ کرنے کی جلدی میں مودی جی نے فیصلے کے ترجمے کا انتظار نہیں کیا یا پھر شاید مودی جی کسی اور ’’ حالت اور موڈ‘‘ میں تھے جس کی وجہ سے انکے منہ سے سچ نکل گیا کیونکہ کم از کم ان کی اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ اس فیصلے سے سچ اور انصاف کی فتح ہوئی ہے اور بھارت کو شکست ہی شکست ملی ہے۔
اگر ہم فیصلے کا مطالعہ کریں تو عالمی عدالت انصاف نے بھارت کے صرف دو نہایت غیر اہم مطالبات تسلیم کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ کلبھوشن کو کونسلر رسائی دی جائے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ’’ ویانہ کنونشن‘‘ کے تحت کونسلر رسائی کا اطلاق جاسوسوں پر نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں ویانہ کنونشن واضح نہیں تھا اب عالمی عدالت انصاف نے واضح کر دیا ہے کہ اس کا اطلاق جاسوسوں پر بھی ہوتا ہے۔ کونسلر رسائی کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے اور پاکستان اگر پہلے ہی کلبھوشن کو کونسلر رسائی دے دیتا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھااور نہ اب پڑے گا۔ کونسلر رسائی کا مطلب یہ نہیں کہ بھارتی حکومت کو اس دوران کوئی ایسا موقع ملے گا کہ وہ کلبھوشن کی ہمت بندھائیں یا اسے کوئی ایسی دھمکی دیں جس کی بنا پر مجبور ہو کر وہ پاکستان کے خلاف کوئی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جائے۔ بھارتی کونسلر سے یہ ملاقات دفتر خارجہ کے نمائندوں کی موجودگی میں بھی ہو سکتی ہے یا بھارتی کونسلر اور کلبھوشن کی بات فون پر بھی کروائی جا سکتی ہے۔ دوسری بات جس پر بھارت میں شادیانے بجائے جا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کلبھوشن کی سزائے موت کے فیصلے پر نظر ثانی کر لے۔ اس بات کو لے کر بھارتی میڈیا اور مودی جی اپنی جنتا کو یہ بتا رہے ہیں شاید عالمی عدالت نے کلبھوشن کی سزائے موت ختم کر دی ہے۔ اگر عالمی عدالت کا فیصلہ پڑھیں تو جہاں پاکستان کو ’’ مشورہ‘‘ دیا گیا ہے کہ پاکستان کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کرے وہاں الفاظ استعمال کئے گئے ہیں کہ "by the means of its own choosing" ۔ یعنی عالمی عدالت نے نہ صرف پاکستان کو کہا ہے کہ وہ کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کے لیے اپنی پسند کا فورم استعمال کر سکتا ہے بلکہ کلبھوشن کے کورٹ مارشل ہونے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ دوسرے الفاظ میں اسے بھارتی نیوی کا افسر قرار دیا گیا ہے۔ اب کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی تو پاکستانی قانون کے مطابق بھی پہلے ہی ہونی تھی کیونکہ کلبھوشن نے رحم کی اپیل کر رکھی کے جو نظر ثانی کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان رحم کی اس اپیل کے دوران نظر ثانی کرے یا اپنے قانون کے مطابق کسی بھی کورٹ میںنظر ثانی کرے فیصلہ تو شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہونا ہے جو تمام کے تمام کلبھوشن کے خلاف ہیں۔
کلبھوشن تو ایک ذات کا نام ہے جو بھارتی خفیہ ایجنسی کا مہرہ تھا لیکن اس فیصلے سے پاکستان نے خارجہ محاذ پر بہت اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ پاکستان اور بھارت میں جب بھی کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو بھارت کا موقف ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے اور بھارت اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں کر سکتا ۔ ا س کیس میں بھارت اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹ کر خود اس تنازعہ کو ایک بین الاقوامی فورم پر لے جانے پر مجبور ہو گیا۔ علاوہ ازیں نہ صرف بھارتی موقف کہ پاکستانی اداروں نے کلبھوشن کو ایران میں اغوا کیا تھا بھی غلط ثابت ہو گیا بلکہ بھارتی جنتا کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ بھارتی وزیر اپنی پارلیمنٹ میں بھی غلط بیانی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی عالمی عدالت انصاف نے نہ صرف یہ تسلیم کیا کہ کلبھوشن بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے بلکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کلبھوشن کے ’’ مبارک پٹیل‘‘ کے نام سے جاری کردہ پاسپورٹ کو مستند قرار دیا یعنی کے عالمی عدالت انصاف کے مطابق یہ پاسپورٹ بھارت کی حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا تھا اور اسطرح یہ ثابت ہو گیاہے کہ بھارت پاکستان کے اندر مداخلت اور دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اگر تمام فیصلہ نظر میں رکھ کر ہمارا دفتر خارجہ اپنے پتے درست طریقے سے کھیلے تو اس فیصلے سے پاکستان کو خارجہ محاذ پر مزید اہم اور دور رس کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں اور واقعی اس فیصلے میں ’’ سچ اور انصاف کی فتح ‘‘ ہوئی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024