کوئی مانے یا نہ مانے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ قومی سیاست میں آداب و اخلاقیات وضعداری، لحاظ اور تعظیم و تکریم کی روایات عالم نزع ہی میں نہیں بلکہ دم توڑ چکی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس دشتِ پر آشوب میں چہل قدمی سے اپنا دل بہلانے والے بلاتخصیص اس حقیقت سے بے نیاز ہو چکے ہیں کہ وہ عمر کی کتنی حدیں عبور کر چکے ہیں؟ عمر کے کسی حصے میں ہیں؟ ان کا ایج گروپ کیا ہے؟ جن سے مخاطب ہیں وہ کس ایج گروپ کے ہیں؟ کیا ان کے مخاطب کا ایج گروپ ان کے والد محترم یا دادا ابو کے لگ بھگ ہے یا ان کے برابر ہے؟ بوجوہ ایسے حقائق کو پائوں تلے روندتے ہوئے اپنی بات ہر حالت میں کہہ دینے ہی کی راہ پر گامزن رہنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ یہی وہ حالات و واقعات ہیں جن کے نتیجے میں قومی سیاست سے اخلاقی اقدار و جمہوری روایات اور مہذب اندازِ تخاطب کی روایات رخصت ہو گئیں اور نوبت بہ اینجار سید کہ میدان سیاست کے متحارب دھڑوں میں گویا آپ ، صاحب، جناب، محترم یا ملک کے قابلِ فخر اور باعث تکریم عہدوں کے حوالے سے ایک دوسرے کو پکارنا متروک قرار پا چکا ہے۔ ایسے قابل قدر عہدوں پر متمکن اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ شخصیتوں کو ان کے نام بگاڑ کر پکارنا اور آداب و اخلاق کے تقاضوں کے دانستہ طور پر پسِ پشت ڈال کر ’’تم‘‘ سے پکارنا اپنی بڑائی تصور کیا جاتا رہا ہے۔ میدان سیاست میں اپنی آسودہ حال زندگی کی آڑ میں کھمبیوں کی مانند پیدا شدہ جڑی بوٹیوں کی کونپلوں کی زبانیں بھی اس معاملے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شور و غوغا کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔
اس حوالے سے قومی سیاسی تاریخ کے اوراق کو کھنگالا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ملکی سیاسی فضا کو آداب و اخلاق اور وضعداری و رواداری و تحمل اور تعظیم و تکریم کی روایات کو نظرانداز کرنے کی ابتداء جنرل ضیاء الحق کے بدنام زمانہ مارشل لاء کے عہد میں ایک مخصوص طرز فکر کے سیاسی عناصر کی باقاعدہ پشت پناہی سے ہوئی تھی۔ جنہوں نے ا یک سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف بہتان تراشی اور دشنام طرازی کا طوفان کھڑا کر کے اس سلسلے میں پمفلٹوں اور اشتہاروں کی بھرمار کی تھی۔ اگرچہ یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے بعد کے ادوار میں بھی کسی حد تک روا رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی ملکی اور قومی سطح کے مناصب و مراتبے کا لحاظ رکھا جاتا رہا۔ حتیٰ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بحالی جمہوریت کی خاطر اپنے لیے ظلم و تشدد اور قید و بند کی دعوت دینے والے قدآور سیاسی رہنمائوں اور جی دار سیاسی کارکنوں کی طرف سے تنقید و تضخیک کر تے ہوئے برسرِ اقتدار عناصر کے خلاف کبھی ایسے الفاظ نہ کئے جو آداب و اخلاق کے منافی ہوئے۔ مگر یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ سیاست میں متحارب سیاسی جماعتوں یا دھڑوں کے خلاف ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دوران جن عناصر کو مخصوص مقاصد کے تحت سیاست میں حصہ لینے کے لیے تیار کیا ہے ا ور ان کی مسلسل سرپرستی کی گئی۔ انہوں نے سیاسی اور جمہوری روایات و اخلاقیات کو روند کر رکھ دیا۔ مارشل لاء کی پروردہ یہی کھیپ قریباً مسلسل دو اڑھائی عشروں تک ملک میں برسرِ اقتدار رہی۔ ا سی عہد میں ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام سے مجموعی طور پر اربوں روپے کی عنایات ہوتی رہیں۔ ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دوران ایسی پنجاب حکومت کے ارکان صوبائی اسمبلی کو لاہور کی رہائشی سکیموں میں رہائشی پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ یہ ترقیاتی سکیموں کے نام پر فنڈز کی گراں رقم دینے کے علاوہ تھے۔ درحقیقت یہ قدم جنرل ضیا ء الحق نے اس اقدام کی تقلید میں اٹھایا گیا تھا کہ انہوں نے مجلسِ شوریٰ کے تمام ارکان کو بلاتخصیص اسلام آباد میں رہائشی پلاٹ الاٹ کئے تھے۔ گویا اس طرح پاکستان کی نکھری ستھری سیاسی فضا میں سانس لینے والے سیاستدانوں کو قومی وسائل سے ذاتی حرص و ہوس کی پیاس بجھانے کی راہ دکھائی گئی۔ جس کے پس پردہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہوتا تھا۔ جو بہرحال برقرار نہ رہ سکا۔
پاکستانی سیاست میں آداب و اخلاق کو پس پشت ڈال کر متحارب سیاسی جماعتوں کے مابین جو چپقلش جاری ہے جس لب و لہجہ میں ایک دوسرے کے مقام و مرتبے اور عمر کا لحاظ کئے بغیر تنقید کرنے اور مطالبات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسی روایات پر عمل پیرا عناصر ایسا کرنے اپنے بارے میں عام پاکستانیوں پر کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کر رہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ جو لوگ مارشل لاء کی سرپرستی میں پلے بڑھے وہ اب بھی ایک ایسے شخص کو سلیکٹڈ کا نام دیتے نہیں تھکتے جو اانہی کی طرح ایک جمہوری عمل کے تحت منتخب ہو کر ملک کے مقتدر عہدہ جلیلہ پر متمکن ہوا ہے۔ کسی شخص کا نام پکارتے ہوئے اس کا نام بگاڑنے سے جو اپنی کم مائیگی کا رونا روتے ہیں انہیں ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تو اپنی زبان سے کہہ دینا چاہئے کہ جن کو وہ ’’سلیکٹڈ ‘‘ کا نام دیتے تھکتے نہیں، انہیں سلیکٹ کرنے والے یا والا کون ہے۔ اس حوالے س ے بڑھ بڑھ کر بات کرنے والوں کے لیے یہ پتھر اٹھانا بلاشبہ بہت بھاری ہے۔ مگر ان کی نام نہاد جمہوریت پسندی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کا تقاضا یہی ہے کہ اس پتھر کو چوم کر نہ چھوڑیں۔ ہمت، جرأت اور اخلاقی اقدار سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے قوم کو بتائیں کہ کس نے کس کو سلیکٹ کیا ہے؟
زبان کو دوسروں پر تنقید کی راہ پر بے لگام رکھنے والوں کو کھل کر اس راز سے بھی رائے عامہ کو آگاہ کرنا چاہئے کہ ان کے بقول اگر وزیر اعظم انہیں این آر او دینے کا اختیار نہیں رکھتے تو انہوں نے یہ اشارہ کس کی طرف سے کیا ہے کہ جو این آر او دینے کے مجاز ہیں۔ سیاست میں آداب و اخلاق اور احترام و تکریم ایسی روایات سے دانستہ اجتناب کرنے والوں کو اگر واقعی اپنے مخصوص مفادات کے حامل حاشیہ برداروں، حواریوں اور خوشامدیوں کی بجائے ان کے برعکس ملک کے بھوکے ننگے ا ور ماضی کے حکمرانوں کی عیاشیوں اور اللوں تللوں کے نتیجے میں عسرت کی زندگی گزارنے والے عوام کا احساس ہے تو انہیں گمراہ کرنے کی بجائے اشاروں کنائیوں میں قومی اداروں کے بارے میں عوام میں ابہام پیدا کرنے سے توبہ کر لیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38