تعلیم کا عالمی دن اور ہمارا معیار تعلیم

تعلیم سب کیلئے اور جامعہ حکمت عملی کے تحت بلاتفریق عام شہریوں کو دینا حکومت کا فرض ہے۔علم ایک طاقتور اور ضروری ہتھیار ہے ایک جدید تعلیم یافتہ اور پرامن معاشرہ بنانے کے لیے جو ملک کے روشن مستقبل کی طرف لے جائے ،یہ کسی ملک کی ترقی کے لیے بھی سب سے ضروری اور طاقتور ہتھیار ہے ،بنیادی تعلیم ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے جب کہ اعلی تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ہنر مند افرادی قوت فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو کئی مشکلات کا سامنا ہے ، بےتحاشا آبادی ، وسائل کی کمی ، ہنر مند اساتذہ کی کمی، وسائل کا زیاں، عدم تحقیق لیکن اساتذہ کی کمی سب سے اہم ہے، زیادہ تر اساتذہ کے پاس اپنے مضمون کو پڑھانے کے لیے محدود علم ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اساتذہ کو ریسرچ مشکل لگتی ہے کیونکہ ان کے پاس ریسرچ کے لیے علم کی کمی ہے، پاکستانی مارکیٹ میں کس طرح کی کتنی ملازمتیں ہیں اور ان کو پر کرنے کے لیے کس طرح کے کتنے ہنر مند افراد چاہئیں، ہائر ایجوکیشن (ایچ سی سی) کی طرف سے ان سب چیزوں کو مد نظر رکھ کر پلاننگ دکھائی نہیں دیتی ، جس کی وجہ سے بہت سارے یونیورسٹیز کے گریجویٹس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 244 ملین بچے اور نوجوان سکولوں جانے سے قاصر ہیں جب کہ 771 ملین بالغ ناخواندہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 24 جنوری کو عالمی سطح پر ” ورلڈ ایجوکیشن ڈے“ منانے کیلئے مختص کیا گیا ہے، اس دن کو عالمی سطح پر تعلیم کے فروغ کی ا?گاہی کو بڑھانے کیلئے منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ دن پہلی مرتبہ 24 جنوری 2018 کو منایا گیا، 2015 ءمیں عالمی اداروں کی جانب سے تعلیم کے فروغ پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا گیا جس پر 2018 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے "انٹر نیشنل ڈے ا?ف ایجوکیشن " کو بطور قرارداد پیش کیا گیا جسے بعد ازاں ایک عالمی دن کے طورمنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ٹیکنالوجی نے تعلیم کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کب تک سسک سسک کر جینا چاہتے ہیں اور کب ان سے فائدہ اٹھانا شرو ع کریں گے ،اب طالب علموں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی کلاس روم ،ٹیچر ،یونیورسٹی کیمپس کا ہونا ضروری نہیں، ورچوئل ایجوکیشن جس کے ذریعے طلبہ اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ سے انٹرنیٹ کے ذریعے ریکارڈڈ لیکچر دیکھ سکتے اور امتحانی مرکز میں امتحان پاس کر کے کسی بھی شعبے کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ کنٹری کے لیے جہاں وسائل کی کمی کی وجہ سے ایف ایس سی کے بعد یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے میریٹ انتہائی زیادہ ہوتا ہے اور صرف چند طلبہ ہی سرکاری یونیورسٹیز میں پہنچ پاتے ہیں، باقی پرائیویٹ یونیورسٹیز میں بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں یا تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، ایسے ملک میں ورچوئل ایجوکیشن ان تمام طلبہ کی زندگی بدل سکتی ہے ،تمام بین لااقوامی ادارے ورچوئل ایجوکیشن کو موثر نظام تعلیم مان چکے ہیں اور اس ڈگری کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ دوسری ڈگری کی . یونیسکو کے مطابق دنیا میں 24 کروڑ 40 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ 77 کروڑ 10 لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں بالکل بھی پڑھنا لکھنا نہیں ا?تا، اکنامک سروے 2022 ئ کے مطابق پاکستان کی کل ا?بادی کے تناسب سے کل شرح خواندگی 62.8 فیصد ہے جبکہ دیہاتی علاقوں میں54 فیصد اورشہری علاقہ جات میں 77.3 فیصد ہے، پاکستان میں اب بھی 6 کروڑ سے زائد ایسے افراد ہیں جو پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اگر صوبائی اعتبار سے دیکھا جائے تو پنجاب کی شرح خواندگی 66.3فیصد ، سندھ کی 61.8فیصد، خیبر پختونخوا کی 55.1 فیصد اور بلوچستان کی 54.5 فیصد ہے۔ اکنامک سروے 2022 ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مردوں کی شرح خواندگی 72.5 فیصد ہے اور عورتوں کی 51.8 فیصد ہے۔ لیبر فورس سروے2018 ء اور 2019 ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شرحِ خواندگی 62.4 فیصد تھی جو 2021ء میں 0.4 فیصد کے اضافے کے ساتھ 62.8 فیصد ہوگئی۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 28لاکھ بچے (جن کی عمر 5 سے 16 سال کے درمیان ہے) اب بھی سکولوں سے باہر ہیں جن میں 53 فیصد لڑکیاں جبکہ 47 فیصد لڑکے شامل ہیں، جنسی ، سماجی و معاشی حالات اور علاقائی رسم و رواج کی وجہ سے سندھ میں 58 فیصد لڑکیاں اور بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔
پاکستان میں شرح خواندگی کو بڑھانے میں پاکستانی حکومت پچھلے کچھ سالوں سے سنجیدہ نظر ا?ئی ہے اور اب تک پورے پاکستان بشمول آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں نوجوانوں کے لیے ایک لاکھ 70ہزار 190 سے زائد تعلیمی مراکز قائم کیے گئے ہیں جن کے ذریعے 2002 سے لیکر اب تک 39 لاکھ 80 ہزار نوجوانوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کیا جا چکا ہے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔
حکومت پاکستان نے2002 ء میں نیشنل لٹریسی ریسورس سینٹر کے نام سے اسلام آباد میں ایک سینٹر قائم کیا جس کے تحت اب تک تعلیم، عملی زندگی میں کام آنے والی مہارتوں اور ا?مدنی پیدا کرنے کے طریقوں پر سو سے زائد کتابچے بنائے جاچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی تنظیم یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل ا?ڈرے ازولے کے مطابق زندگی کے تمام مسائل بشمول صنفی مساوات اور غربت کا بنیادی حل تعلیم کی مساوی فراہمی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ صرف تعلیم کی فراہمی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک جیسی معیاری تعلیم کی فراہمی کا ہے، پاکستان کے ا?ئین کی شق A 25 کے تحت بنیادی تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔۔ دنیا بھر میں تعلیم کے اعدادوشمار زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں تعلیم مفت نہیں دی جاتی۔ کتابیں، یونیفارم اور بعض ممالک میں تو اساتذہ کی تنخواہوں کا بوجھ بھی طلبائ کے اہلِ خانہ پر ڈالا جاتا ہے۔
دنیا کے 6 کروڑ 70 لاکھ بچے جن کی عمریں پرائمری اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے موزوں سمجھی جاسکتی ہیں، انہیں تعلیم کا حق حاصل نہیں کیونکہ یا تو وہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگتے ہیں یا پھر والدین کی غریبی کے باعث آوارہ گردی اور بعض اوقات بھیک مانگنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سکولوں میں دنیا بھر کے 11 کروڑ 50 لاکھ بچے ابتدائی تعلیم کیلئے داخل ہی نہیں ہوتے۔ پرائمری اور بعض اوقات مڈل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 22 کروڑ 60 لاکھ بچے سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل نہیں کرتے، اس لیے ایسے بچوں کی تعلیم صرف بنیادی جمع تفریق اور پڑھنے لکھنے کی حد تک محدود ہوتی ہے اور بعض اوقات ان صلاحیتوں سے بھی کسی نہ کسی حد تک محروم رہ جاتے ہیں۔ خواتین میں ناخواندگی کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ 20 سے زائد ترقی یافتہ ممالک کی خواتین کی شرحِ ناخواندگی 70 فیصد سے بھی زائد ہے یعنی 30 فیصد سے کم خواتین پڑھنے لکھنے کے قابل رہ جاتی ہیں۔ اس لیے حکومتِ پاکستان کو چاہئے کہ اعدادوشمار کا ہیر پھیر دکھا کر عوام کو طفل تسلیاں دینے کی بجائے جی ڈی پی کا خاطر خواہ حصہ (کم از کم 4 فیصد) تعلیم کیلئے مختص کرے اور گھوسٹ تعلیمی اداروں، گھوسٹ ملازمین اور وڈیروں کی اوطاقوں میں تبدیل ہوجانے والے سکولوں کی حالتِ زار پر توجہ دے کیونکہ قوم کو ملنے والی بہتر تعلیم سے ہی پاکستان کا مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ نئی نسل کو تعلیم کی طرف رحجان دلانے کیلئے لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہونگی جبکہ عوام کو معاشی مسائل کے حل اور مہنگائی کنٹرول کرتے ہوئے ریلیف فراہم کرنا ہوگا اور ابتدائی تعلیم کی مفت فراہمی کے ساتھ ساتھ سکلز کو ڈویلپ کرتے ہوئے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے ہونگے تب جاکے ملک میں نئی نسل کو ایک ایسا ملک مل سکتا ہے جس کا خواب ڈاکٹر محمد علامہ اقبال رح نے دیکھا اور جس کی تکمیل بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رح نے کی تھی۔