فواد چودھری کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کا ردعمل
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے سینئر مرکزی نائب صدر فواد چودھری کو لاہور میں انکی رہائش گاہ ٹھوکر نیاز بیگ سے اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرکے وفاقی دارالحکومت منتقل کر دیا جہاں عدالت نے انہیں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ فواد چودھری کو وفاقی پولیس نے چیف الیکشن کمشنر‘ ارکان اور خاندانوں کو ڈرانے دھمکانے پر تھانہ کوہسار کی ایف آئی آر پر حراست میں لیاہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے فواد چودھری کی گرفتاری پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فواد چودھری کی گرفتاری نے ثابت کیا ہے کہ ملک بنانا ری پبلک بن چکا ہے۔ امپورٹڈ حکومت مجھے گرفتار نہیں کر سکتی۔ فواد نے کسی کو منشی کہہ دیا تو کون سا جرم کر دیا۔ پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری‘ اسد عمر‘ حماد اظہر‘ یاسمین راشد اور دیگر نے فواد چودھری کی گرفتاری پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گرفتاری نہیں‘ اغواء ہے۔
قومی اداروں کی تضحیک کرنا ہماری سیاست کا وطیرہ بن چکا ہے۔ مفاداتی سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کیلئے ریاستی اداروں کو رگیدنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ سیاست میں جہاں ان اداروں کی بے توقیری کی جارہی ہے وہیں سیاست دانوں نے تحمل‘ برداشت اور شائستگی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے ۔ ’میں نہ مانوں‘ کا کلچر ویسے تو ہمیشہ سے قومی سیاست کا حصہ رہا ہے لیکن پی ٹی آئی دور میں اس کلچر نے زیادہ عروج پایا جس سے آئینی اداروں کیخلاف اشتعال انگیز بیانات اور بے بنیاد الزام تراشی کو فروغ ملا۔ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کے بارے میں جو غیرمناسب الفاظ استعمال کئے‘ وہ کسی بھی پارٹی کے سینئر رہنماء کو زیب نہیں دیتے۔ فواد چودھری کے ان بے ہودہ ریمارکس پر ہی سیکرٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر مقدمہ دائر کیا گیا جس کے بعد انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی جسے پی ٹی آئی کی طرف سے انتقامی سیاسی کارروائی کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ آئین نے ہر شہری کیلئے آزادیِ اظہار اور احتجاج کرنے کی حدود متعین کردی ہیںاور یہ قومی سیاست دانوں پر بھی اتنی ہی لاگو ہوتی ہیں جتنا عام آدمی کو اسکی پاسداری کا پابند کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ریاستی اداروں کیخلاف اشتعال انگیزی اور بے بنیاد الزام تراشی کرتا ہے جو ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے تو اس کیخلاف قانونی کارروائی اولین تقاضا ہے۔ اس تناظر میں فواد چودھری کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے انکی گرفتاری کو انتقامی سیاسی کارروائی کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اگر فواد چودھری کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی ہے تو ان کیلئے عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ کسی کیلئے قانون ہاتھ میں لینے کی بہر صورت اجازت نہیں ہونی چاہیئے اور ایسے کسی بھی غیر ضروری اقدام سے گریز کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے ملک میں مزید انارکی پھیلنے کا خدشہ ہو۔