معاشی استحکام دعوے نہیں، اقدامات کیے جائیں
معاشی عدم استحکام کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب تو حکومت نے باضابطہ طور پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایما پر منی بجٹ بھی تیار کرلیا ہے جو اپنے ساتھ مہنگائی کا نیا طور لے کر آئے گا۔ اس سب کے باوجود بالعموم حکمران اتحاد میں شامل سب افراد اور بالخصوص وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار دعوے کرتے جارہے ہیں کہ وہ اچھے دن لارہے ہیں۔ اگر اچھے دنوں سے مراد ان کے اپنے اچھے دن ہیں تو ممکن ہے ان کی بات درست ہو کیونکہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے عوام کے اچھے دن آتے تو دکھائی نہیں دے رہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ایشیا رابرٹ کپروتھ سے ملاقات کے دوران بھی اسحاق ڈار نے یہی کہا کہ معیشت کو درست سمت میں لانا حکومت کی اولین ترجیح ہے، ترقی کے لیے تمام شعبوں میں اصلاحات متعارف کرا رہے ہیں۔ ہر حکمران کی طرح انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو کمزور معاشی ورثے میں ملا۔ حکومت لینے سے پہلے یہی لوگ دعوے کررہے تھے کہ ہمارے پاس تمام ملکی اور عوامی مسائل کا حل موجود ہے، جیسے ہی ہمیں حکومت ملے گی ہم مسائل پر قابو پا کر معیشت کو استحکام کی راہ پر ڈال دیں گے لیکن حکومت ملنے کے بعد انھوں نے جو کچھ کیا اس سے یہ عوام کو راستے پر لے آئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اب دعوؤں سے آگے بڑھے اور ایسے ٹھوس اقدامات کرے جن کی مدد سے نہ صرف مسائل پر قابو پایا جاسکے بلکہ معیشت کی حالت میں بھی کچھ سدھار آسکے۔ اگر یہ سب کچھ ان کے بس کی بات نہیں تو فوری طور پر نگران حکومت قائم کر کے عام انتخابات کا اعلان کیا جانا چاہیے۔