جمعۃ المبارک ، 4 رجب المرجب 1444ھ، 27 جنوری 2023ء
یہ ابھی کا واقعہ نہیں کچھ دوستوں نے اکتوبر 1961ء کے ایک موقر اخبار سے اس خبر کی فوٹو سوشل میڈیا پر ارسال کی ہے یہ اس قدر دلچسپ ہے کہ جی چاہتا ہے قارئین بھی اس سے لطف اُٹھائیں۔ نوابشاہ کے علاقے مورو میں جو اس وقت تو اتنا مشہور نہیں ہوا ہو گا نہ بڑا تھا کہ زیادہ لوگ جانتے ہوں اب تو سب جانتے ہیں وہاں رات کو یا دن ڈاکوئوں نے گھات پر ایک مسافر بس پر حملہ کیا یعنی اسے اسلحہ کے زور پر روکا اور مسافروں سے قیمتی اشیاء چھین لیں نقدی گھڑیاں لے لیں۔ اس وقت یہی قیمتی چیزیں ہوتی تھیں۔ اب چونکہ اس وقت موبائل فونز نہیں تھے ورنہ ان کا ذکر خیر سب سے اوپر ہوتا۔ کیونکہ آج کل سب سے پہلے موبائل فونز ہی چھینے جاتے ہیں۔ بہرحال اس لوٹ مار سے فارغ ہو کر جب ڈاکوئوں نے اطمینان کا سانس لیا تو بس کے سب سے معمر بزرگ مسافر سے کہا کہ سائیں اب آپ اس مکمل پُرسکون واردات پر دعائے خیر کریں کہ کسی کو زخمی ہونا یا مرنا نہیں پڑا۔ اس پر بس کے سب سے بوڑھے مسافر نے گڑگڑا کر روتے ہوئے ڈاکوئوں کے حق میں دعائے خیر کرائی خدا جانے اس میں ان کی سلامتی اور طویل عمر کے ساتھ ان کے کاروبار میں برکت کی دعا بھی شامل تھی یا نہیں۔ بہرحال اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کے ڈاکوئوں میں تھوڑا بہت دینی تعلیمات کا اثر تھا جو اب بالکل نہیں رہا۔ اس لیے یہ واقعہ درج کیا جا رہا ہے کہ کم از کم ہمارے موجودہ ڈاکو بھائی بھی واردات کے بعد دعائے خیر کرایا کریں تو شاید پکڑے جانے پر جیل جانے یا پھر پولیس کے ہاتھوں کتے کی موت مرنے سے بچ سکتے ہیں۔ ہاںاگر دعا کرانے والے کو لوٹی ہوئی رقم سے کچھ شکرانے یا نذرانے کے طور پر بھی دیا کریں تو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ بزرگ ویسے ہی رقیق القلب ہوتے ہیں۔ یوں دعا میں اثر بھی بڑھ جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے میں کابینہ کی تشکیل پر ڈیڈلاک برقرار
جب نیتوں میں کھوٹ ہو تو پھر ہر کام میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس وقت نگراں وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ اپوزیشن اور سابقہ حکمران جماعت سے چند نام منگوائیں اور ازخود ان میں سے اچھی شہرت رکھنے والوں کو وزیر بنا کر کابینہ تشکیل دیں اور صوبے میں کام چلائیں۔ اگر ہر جماعت کی یہ خواہش ہے کہ اس کے وزیر زیادہ تعداد میں ہوں تو پھر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کہ کابینہ کی تشکیل آسانی سے ہو۔ یوں حکومتی کام کاج میں خلل پڑے گا یا پھر سابقہ اسمبلی نشستوں کو سامنے رکھ کر حصہ بقدر جثہ والے فارمولے سے کام لیا جا سکتا ہے۔ مگر کیا اس پر یہ اقتدار کی بھوکی جماعتیں اتفاق کریں گی۔ اگر دونوں فریقین کے برابر تعداد میں وزیر لئے جائیں تو اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو سکتا۔ دونوں فریقین کابینہ میں بھرپور حصہ چاہتے ہیں اور قائم مقام وزیر اعلیٰ کی خواہش ہے کہ کابینہ مختصر ہو۔ ویسے بھی اس چند ماہی کابینہ نے کونسا توپ چلانا ہے۔ الیکشن کروا کر گھر کی راہ لینی ہے۔ مگر کیا کیا جائے ان حسرتوں کا جو وزیر بننے کی شکل میں ہی پوری ہوتی ہیں۔ گاڑی، جھنڈا، پروٹوکول، فنڈز، شاہانہ انداز اب یہی تو رہ گئی ہے ہم پر حکومت کرنے والوں کی خواہش ۔ ان بے دردوں کے دل کے کسی گوشے میں عوام کے لیے ذرا بھر بھی جگہ نہیں۔ کسی کے دماغ میں بھول کر بھی کبھی عوام کے مسائل نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے حالات آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے پہلے ہوتے تھے۔
٭٭٭٭٭
امریکہ میں بہو سے 12 سال مشقت لینے والی پاکستانی فیملی کو سزا اور جرمانہ
اب ان پاکستانیوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ بہو بیاہ کر لائے ہیں تو جس طرح پاکستان میں وہ پورے گھر کی خادمہ بن کر رہتی ہے۔ گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا۔ کپڑے و برتن دھونا، استری کرنا، صبح سے شام تک اپنے کام میں جتے رہنا اس کی ذمہ داری کہلاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں بھی یہ پاکستانی بہو ایسا ہی کرے۔ مگر وہ بھول گئے یا جان بوجھ کر انہوں نے ایسا کیا کہ وہ امریکہ ہے، پاکستان نہیں۔ وہاں بہو کو ملازمہ بنا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ گھریلو ذمہ داریاں امریکی قانون میں بلامعاوضہ ہو تو مشقت کے زمرے میں آتی ہیں۔ نجانے کس طرح 12 سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جب معاملہ سامنے آیا تو عدالت نے اس خاتون کو اس جبری مشقت سے رہائی دلواتے ہوئے اس کے تین گھر والوں جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے‘ جبری مشقت لینے کے جرم میں 12 سال قید اور اڑھائی لاکھ ڈالر ہرجانہ متاثرہ خاتون کو ادا کرنے کا حکم سنایا۔ اس کے بعد شاید اب اس گھر والوں کو اندازہ ہو گیا ہو کہ انہوں نے جانے یا انجانے میں یہ کیا کر دیا۔ آفرین ہے ہمارے ملک کی بہو بیٹیوں پر جو نہایت تحمل اور برداشت کے ساتھ یہ سارے کام کرتی ہیں۔ اگر ہم ان کا معاوضہ نہیں دے سکتے تو کم از کم ہم خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا شکریہ تو ادا کر سکتے ہیں۔ شکریہ ادا کرنے میں کونسا خرچ آتا ہے۔ اس طرح ہماری بہو بیٹیوں کا سیروں خون بڑھ سکتا ہے کہ ان کے گھر والے ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ ویسے عام طور پر ہمارے ہاں بھی بہوئوں کی ایسی قسم پائی جاتی ہے جو صرف شوہروں کو تابع فرمان بنا کر ان سے گھریلو کام کاج کرانا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ ان کے گھر والوں کے کام کو ہاتھ نہیں لگاتی یوں اپنے تئیں خود کو کامیاب چالاک بہو سمجھتی ہیں۔ مگر وہ بھول جاتی ہیں کہ جب وہ ساس بنیں گی تو ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔ کہتے ہیں ناں جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
٭٭٭٭٭
افغانستان میںسعودی عرب اور او آئی سی کی طرف سے 30 لاکھ ڈالر کا امدادی سامان تقسیم
افغانستان کی تباہی‘ بدحالی میں سب سے بڑا ہاتھ وہاں کے حکمران اور اس کے علاوہ وار لارڈز کا ہے۔ پہلے روس پھر امریکی فوج کی افغانستان میں ہزیمت کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے اور تقسیم کئے گئے اسلحہ نے پورے ملک کو ہتھیاروں کا ڈپو بنا دیا ہے جس کی وجہ سے وہاں خانہ جنگی کا عالم ہے۔ اب افغان طالبان کی آمد سے امید تھی کہ صورتحال بہتر ہوگی مگر اس میں بھی دور دور تک کوئی کامیابی نظر نہیں آرہی۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرکے ملک کی تعمیروترقی اور امن و سلامتی لانے کی بجائے طالبان نے بھی وہی پرانا طاقت کے زور پر سب کو دبانے والا سلسلہ جاری رکھا ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا بھر کو تشویش ہے۔ باقی سب کو چھوڑیں‘ خود مسلم ممالک بھی ان کے اس رویئے سے نالاں ہیں۔ ایک طرف پورا ملک سابقہ خانہ جنگی اور جنگی تباہ کاریوں کی وجہ سے کھنڈر بن چکا ہے اوپر سے بے رحم موسمی حالات نے بھی پورے ملک کوجکڑ رکھا ہے۔ طالبان کی پالیسیوں نے عالمی سطح پر افغانستان کوعالمی سطح پر یک وتنہا کر دیا۔ ظاہری بات ہے جب آپ کسی کی سنی ان سنی کر دیں گے تو کوئی آپ پر بھی توجہ نہیں دے گا۔ اس وقت افغانستان شدید غذائی بحران اور مالی بحران کا شکار ہے۔ ادویات کی شدید قلت ہے۔ سخت موسم سرما کی وجہ سے لاکھوں افغان بدترین حالات میں تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب اور او آئی سی کی طرف سے غذائی اور طبی امداد آرہی ہے۔ وہ بھی تھوڑی معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان، چند دیگر مسلم ممالک اور یورپی ممالک بھی جو مدد کر رہے ہیں‘ وہ بھی ناکافی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردارکیا ہے کہ اگر طالبان نے طرز حکمرانی نہ بدلا‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم نہ کیں تو وہ عالمی سطح پر یک و تنہا ہوسکتا ہے۔ اس کا بھی طالبان حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی افغانستان کے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔ اس لئے طالبان اپنی سخت گیر پالیسیوں میں نرمی لائیں تاکہ عالمی برادری وہاں امدادی کارروائیاں شروع کر سکے۔
٭٭٭٭٭