
لاہور سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے روشن خیال سینئرصحافی خالد چودھری کی رحلت کی خبر نے جہاں دل غم ورنج سے بھر دیا وہیں اس مرد جری کی طویل سیاسی جد جہد بھی یاد آ گئی خالد چودھری نے پاکستان میں صحافت کی آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد کی اوراس سلسلے میں مصائب کا بھی سامنا کیا لیکن ان کے عزم مصمم میں کسی بھی قسم کی لچک اور کمی نہیںآئی۔ خالدچودھری میرا بہت اچھا دوست تھا وہ انتہائی اجلا انسان تھا جس کا ندر اور باہر ایک جیسا تھا وہ جب بولتا تو لگتا دل اور زبان ایک ساتھ بول رہے ہیں۔ اسے دوستوںمیں خوشیاں بانٹتے تو دیکھا ہے مگر غم بانٹے کبھی نہیںدیکھا۔ جہاں وہ اچھے دوست اور انسان اکٹھے کرنے کا ہنر جانتا تھا وہیں اسے اچھی کتابوں ادب اور ادیبوں سے بھی شغف تھا۔ اسے کبھی چیخ چیخ کر بات کرتے نہیں دیکھا ۔دھیما اور مٹھاس بھرا لہجہ اس کی پہچان بن چکا تھا۔ میں نے خالدچودھری کو زیادہ تر ہنستے مسکراتے ہشاش بشاش خوبصورت اور رنگین باتیں اور خوشبو بھرے جذبات نچھاور کرتے ہوئے ہی دیکھا۔وہ اپنے اندر کے غم لئے پھرتا تھا اس بات کو مگر کبھی ظاہر ہی ہونے نہیں دیتا تھا۔ کتابوں کی دکانیں اس کا ڈیرہ ہوتا۔
خالدچودھری نے صحافت کا آغاز روزنامہ’ مساوات‘ سے کیا تھا۔ وہ صحافیوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے کام کو انتہائی اخلاص اور ذمہ داری سمجھ کر کیا کرتے تھے جب ضیا الحق نے بھٹو شہید کی حکومت پر شب خون مارا تو خالدچودھری بھی دیگر صحافیوں کے ساتھ ضیأ کے عتاب کا شکار ہوئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال بلکہ جوانی کے بہترین سال شاہی قلعے کی جیل میں گذارے اور اپنی کمٹمنٹ پر پورا اترتے ہوئے آخر وقت تک ضیا رجیم سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ماہ و سال جوانی کی بہاریں بھٹو شہید کی محبت میں قربان کر دی تھیں اور باقی ضیا الحق نے ان کی زندگی کے حسین سال کھا لئے۔ لاہور کے بدنام زمانہ قلعے کے عقوبت خانے کی 13 نمبر کوٹھڑی میں گزارے دنوں کو وہ بڑے مزے لے کر سناتے اور کہتے کہ میں نے جیل کو جیل سمجھا ہی نہیں اور اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے گانے گاتا رہتا۔
لیکن ہم خالدچودھری کو کبھی نہیں بھولیں گے ۔وہ ہم سب کا اچھا دوست تھا۔ وہ ایک بے لوث شریف آدمی تھا۔ ہماری پہلی ملاقات 1972 ء میں صوبائی وزیر محنت ملک مختار اعوان کی جی او آر کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ میں نے اسے سب سے اچھا اور مخلص ساتھی پایا جس کے بعد وہ میرے سب سے پیارے دوست بن گئے۔ وہ پی پی پی کے بانی رکن اور بھٹو شہید کے اچھے دوست تھے لیکن اپنی پوری زندگی میں کبھی اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔
خالدچودھری روزنامہ’ خبریں ‘ میں بھی کالم لکھتے رہے اور چینل فائیوکے پروگرام کالم نگار میں بھی بطور تجزیہ نگار جاتے رہے۔ 2008 ء میں سلمان تاثیر نے روزنامہ’ آج کل‘ کا آغاز کیا تو خالد چودھری نے سلمان تاثیر کی خواہش پر ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ جنرل ضیا کے دور نے جہاں پاکستان کی معاش، معاشرت اور سماج کے تار وپود بکھیرے وہیں میڈیا پر بھی پابندیاں لگائیں۔ صحافیوں کو کوڑے مارے گئے اردو میڈیا کا تو برا ہی حال ہوا بلکہ بنیاد پرستی کے فروغ میں ضیأ دورکا کردار بڑا اہم ہے۔ ان حالات میں خالدچودھری جیسے روشن خیال یا ترقی پسند لکھار یوںکو اردو میڈیا میں جگہ نہیں ملتی تھی۔
ان حالات میں خالدچودھری نے ’ آج کل‘ کی ایڈیٹری سنبھالی اور اپنی روشن خیالی، بہترین حکمت عملی اور آزادانہ پالیسیوں کی بدولت روزنامہ ’آج کل‘ دنوں میں عوام میں مقبول ہوگیا۔ تقریباً تمام ترقی پسند اور روشن خیال لکھاری روزنامہ ’ آج کل‘ میں لکھنے لگے اور پھر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اردو صحافت میں جو روشن خیالی اور ترقی پسندی کی شمع جلی تھی وہ بجھ گئی اور پھر اندھیرا چھا گیا۔ خالدچودھری جیسے انسانوں سے ہی ہمارے جیسے معاشروں کی آبرو قائم رہتی ہے۔ وہ جتنی دیر بھی زندہ رہتے ہیں اپنی زندگی کو بھر پور طریقے سے نہ صرف گزارتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی روشن مثال بن جاتے ہیں۔ وہ دوستوں کے دوست تھے ۔ہر ایک کی مدد کے لئے آگے بڑھتے ۔ ان کے بارے کہا جاسکتا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت انسان تھے۔
خالدچودھری کے بارے بہت کچھ کہا، لکھا جاسکتا ہے، بلکہ بہت سارے دوستوں نے بہت لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں ، ہم سمجھتے ہیں وہ ان سب باتوں سے ماورا ایک بڑ ا انسان تھا جو ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔اس نے ایک بھر پور اور مکمل بے مثال زندگی گزاری۔ دعا ہے رب انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو اس عظیم سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت کے ساتھ صبر جمیل عطا کرے آمین۔