
حضرت محمد ﷺ کی سنت کو مدنظررکھتے ہوئے اگر آپ اپنی زندگی کے ہرشعبے کے معاملات کو درست کرتے چلے جائیں تو آج جو ملک میں افراتفری کا عالم ہے اس سے ہم بآسانی نکل سکتے ہیں۔عصرِ موجود میں امت مسلمہ جن اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے اور جس طریقے سے دشمنانِ اسلام اقوامِ عالم کے سامنے دینِ حنیف کے حسین چہرے کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں اور غیر مسلم عوام کو خوف و دہشت میں مبتلا کر کے اپنے ناپاک اور مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے راہیں تلاش کر رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ضروری ہو گیا ہے کہ ایسے افراد کے سامنے جو دینِ خدا کا کماحقہ ادراک نہیں رکھتے اوراسکے پیغام سے کلی طور پر ناآشنا ہیں اور جن کا ذہنِ نارسا محض استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہے اسلام کے اس حقیقی چہرے کی نقاب کشائی کی جائے جسے دیکھ کر ہر صاحبِ فکر و نظر اسکی جانب کھنچا چلا آتا ہے۔اسلام محبت، اخوت، امن اور بھائی چارے کا دین ہے اورآقائے نامدار حضرت محمدﷺ کی شخصیت کاملہ اسکی زندہ تفسیر اور عملی تصویر ہے۔ آپﷺ رحمت کا پیکر اور امن کا پیمبر بن کر اس دنیا میںتشریف لائے۔ آپﷺ کا دائرۂ رحمت تمام انسانیت تک پھیلا ہوا ہے۔ آپﷺ نے ہمیشہ خلقِ خدا کے مابین امن و محبت کوفروغ دینے کیلئے عملی اقدامات کیے۔ مدینۃ النبی (جو کبھی یثرب کے نام سے موسوم تھا) کے دو قبیلے اوس اورخزرج عرصۂ دراز سے باہم دست و گریباں تھے۔ آپﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپﷺ کے فیضان مبارک سے یہ دونوں قبائل جو کبھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اپنی عداوتیںختم کر کے باہم رشتۂ اخوت میں منسلک ہو گئے۔ یہود کو یہ بات ناگوارگزری۔ ایک روز یاس بن قیس کا جو ایک یہودی عالم تھا، گزر ایک ایسی محفل سے ہوا جہاں اوس اورخزرج سے تعلق رکھنے والے افراد باہم شیر و شکر ایک دوسرے سے محبت بھری گفتگو کر رہے تھے۔ یاس بن قیس سے یہ برداشت نہ ہو سکا اس نے اپنے ایک ساتھی کواس محفل میں بھیجا۔ اس نے اوس و خزرج کے سامنے کچھ ایسے اشعار پڑھے جن میں ان کی پرانی جنگوں کا تذکرہ تھا۔ اسکی یہ سازش کامیاب رہی اوران اشعار کے نتیجے میں محفل کا رنگ بدل گیا۔ اوس و خزرج کے افراد میں تلخ کلامی شروع ہو گئی اور بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی۔ دونوں اطراف سے تلواریں نیام سے باہر آگئیں۔حضورﷺ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ فوراً اپنے اصحاب کے ہمراہ اس مقام پر تشریف لے آئے۔ آپﷺ دونوں صف آراء قبائل کے درمیان کھڑے ہو گئے اور فرمایا، ’اے اوس وخزرج! کیا ہوگیاہے؟ میری عدم موجودگی میں تم پھر سے عہدِ جہالت کی رسمیں تازہ کر رہے ہو؟ عداوت کی و ہ آگ جس کے شعلوں کو اسلام کے ابرِ رحمت نے بجھا دیا تھا تم اسے دوبارہ بھڑکا نا چاہتے ہو؟ یہ شیطان کی وسوسہ اندازی اور تمہارے دشمنوں کی سازش ہے۔‘ رسول اللہ ﷺکے ارشادات سن کر ان کی آنکھیںندامت سے جھک گئیں۔ انھوں نے اپنی برہنہ تلواریں دوبارہ نیام میںرکھ دیں اوراشکبارآنکھوں سے دوڑ دوڑ کر ایک دوسرے کو گلے لگانے لگے۔
کاش آج ہم بھی رحمتِ عالم ﷺکے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے نسلی، گروہی، لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات ختم کرکے اپنے بھائیوں کو بڑھ کر گلے لگا لیں اور دشمنانِ اسلام کے مکروہ عزائم کو خاک میںملادیں۔ مرجعِ خلائق، سیدِ لولاک حضرت محمد مصطفیﷺ کوخلقِ خدا سے بے پنا ہ محبت تھی۔ آپﷺ اپنے مخالفین سے بھی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ ایک طرف آپ ﷺ کے دشمنوں کا یہ حال کہ وہ آپﷺ کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچا رہے ہیں اور دوسری طرف آپﷺ کی رحمت کا یہ کمال کہ آپﷺ ان بدبختوں کیلئے دعائے ہدایت فرما رہے ہیں۔ ایک طرف آپ ﷺ کے اعداء آپﷺ کو جان سے مارنے کے در پے ہیں اور دوسری طرف آپﷺ انھیں حیاتِ جاودانی کا جام پلانے کے آرزومند ہیں۔
اسلام نہ صرف اتحاد بین المسلمین کا خواہاں ہے بلکہ تمام بنی نوع انسان کے مابین اخوت اوربرادری کی فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔ محض اپنے مخصوص ہم مسلک اور ہم عقیدہ افراد کے مابین وحدت و اخوت کی بات کرنا تنگ نظر اورمحدود فکر کے حامل افراد کا طرزِ عمل ہے لیکن غیروں کے مابین بھی صلح و آشتی اور امن و امان قائم رکھنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنا صرف اس خیرالبشرﷺ کی سنت ہے جو تمام انسانوں کیلئے رحمت بن کر ئے۔ حجرِ ا سود کو اسکے درست مقام پرنصب کرنے کے معاملے میں جس طرح آپﷺ نے اپنی بے مثل بصیرت، حکمت اور فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف قبائل کے مابین جنم لینے والے ایک بڑے فتنے کا سدِباب کیا، تاریخِ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج ہم ہیں کہ بجائے اسکے کہ دوسری اقوام و ملک کے باہمی تنازعات کوحل کرنے کے قابل ہوتے، غیر اقوام اور انکے رہنمائوں کواپنے اندرونی اختلافات اور مسائل کو حل کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور جب یہ اغیار ہمارے مسائل کو اپنے مفادات او ر ترجیحات کیمطابق حل کرتے ہیں(مزید بگاڑتے ہیں) تو ہم نئے قسم کے مسائل اور مشکلات کے بھنور میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور پھر ہم کہیں کے نہیں رہتے۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ آپﷺ نے کبھی بھی مخالفین پر زبردستی اپنے نظریات مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپﷺ نے ہمیشہ اپنے کردار اوراعلیٰ اخلاق کے زور پرمدِ مقابل کے باطل نظریات کو شکست دی۔ آپ ﷺمکارمِ اخلاق کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز تھے۔ قرآن کریم اس کی گواہی یوںدیتا ہے۔ (ترجمہ) ’بے شک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔‘ آپﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمایا، ’میں تو بھیجا ہی اسی لیے گیا ہوں کہ اخلاق کے درجات کی تکمیل کروں۔‘ حضرت علیؓ آپﷺ کی سیرت وکردار پرر وشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں، ’آپ ﷺ خندہ جبیں، نرم خو، مہربان طبع تھے۔ سخت مزاج اور تنگ دل نہ تھے۔ بات بات پر شور نہ کرتے تھے۔ کوئی برا کلمہ اپنے منہ سے کبھی نہیں نکالتے تھے، نہایت فیاض، نہایت راست گو، انتہائی نرم طبع اور نہایت خوش صحبت تھے۔‘ حضرت عائشہ صدیقہؓ آپﷺ کے اخلاق کو ایک جملے میں یوں بیان فرماتی ہیں، ’آپﷺ کااخلاق ہمہ تن قرآن تھا۔‘ اسلام اعتدال پسندی اور میانہ روی کا دین ہے۔ امن اور سلامتی کیلئے اعتدال ضروری ہے۔ انتہا پسندی اور شدت پسندی سے کبھی بھی بنی نوع انسان کی سلامتی کویقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ رسول اللہﷺ کی بعثت کا اصل مقصد ایک ایسے عادلانہ معاشرے کا قیام تھا جس کی اساس اعتدال پسندی، روشن خیالی اورسماجی انصاف پر قائم ہو۔