
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے۔
تابندہ خالد
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں لیکن آج کل بچوں کا سیاست میں دلچسپی لینا اور سیاسی رہنماؤں کے متعلق اپنے تاثرات قلمبند کروانا حیران کن ہے۔ پانچ سے چھے سال کا بچہ بھی اپنے آپ کو فلاں فلاں پارٹی کا کارکن بتاتا ہے۔ مضحکہ خیز بات کہ اس عمر میں موصوفہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو نواز شریف کی زوجہ سمجھتی تھی کیونکہ 92 میں سیاسی چپقلش بھی کچھ زیادہ ہونے لگی تھی۔۔۔والدین سیاسی گفتگو کرتے تھے کہ نواز شریف نے یہ کر دیا ، بینظیر نے یہ کہہ دیا وغیرہ تو میرے ذہن میں عجیب منظر کشی ہوتی تھی۔ ہر کسی کی زندگی میں بچپن ایک ایسا سنہری دور ہوتا ہے جو صحیح معنوں میں سرمایہ حیات ہوتا ہے۔ جب کوئی بیمار ہوتا ہے، پریشان ہوتا ہے یا کوئی الم پہنچتا ہے تو اسے اپنا وہ وقت یاد آتا ہے جب وہ دنیا و مافیہا کے تفکرات سے آذاد تھا کینہ، عداوت، حسد کا وہم و گمان بھی نہ تھا اور ماں کی گود جائے پناہ تھی۔
آج کل کے بچے سلو انٹرنیٹ کے پیچھے روتے ہیں وہ کیا جانیں کہ ہم نے یہ دکھ بھی جھیلا ہے جب عطاء اللہ عیسی خیلوی کیسٹ میں پھنستے تھے تو ہم انہیں کیسے نکالتے تھے۔ آج کل انٹرنیٹ کے ذریعے مووی ڈاؤن لوڈ کرکے بچے اپنی من پسند ویڈیوز، موویز دیکھ سکتے ہیں اور ایک طرف ہم تھے سب کزنز اللہ اللہ کرکے دو ،دو روپے اکھٹے کرکے دس روپے کی کیسٹ لے کر انٹرٹینمنٹ کیا کرتے تھے۔ آج کل کے بچے ڈیجیٹل گھڑیوں کے علاوہ بات نہیں کرتے اور ایک ہم تھے پین سے کلائی پر گھڑی بنا لیا کرتے تھے۔ آج کل فیس بک ریل کا دور دورہ ہے اور ہم۔۔۔ دو کتابوں کے صفحات کو ایک دوسرے کے ساتھ پلٹ کر ریل بنا لیا کرتے تھے۔ اگر بجلی چلی جائے تو آجکل کے بچے بور ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ وائی فائی بند ہو گیا ہے اور ایک ہم تھے کہ بجلی جانا باعثِ مسرت ہوا کرتا تھا۔ آج کل کے بچوں کی اپنی دنیا ہے وہ اپنا موبائل لیکر گھروں کے کونے میں پڑے رہتے ہیں۔ ہم اپنے بچپن میں دھواں، الفا براو چارلی، جیسے سبق آموز ڈرامے پورے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے۔ آج کل کے بچے عملی کھیلوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتے اس کے برعکس ہم تکیوں، سرہانوں کے گھر بنایا کرتے تھے۔ سکول کی نان ٹکی اور برف گولا کا مقابلہ کوئی بھی کھانا نہیں کر سکتا تھا۔ کتابوں میں مور کا پنکھ رکھ کر ہم ذہین اور ہوشیار ہو جائیں گے یہ ہمارا اعتقاد تھا۔ جیومیڑی میں ربڑ، شاپنر، پینسل سلیقے سے رکھنا سگھڑپن ہونے کا ثبوت تھا۔ چھے مہینے بعد نئی جماعت کی کتابوں، کاپیوں پر کور چڑھانا ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔ آج کل کے بچے مار کھانا اپنی ہتک سمجھتے ہیں فوراً والدین سے شکایت کرتے ہیں اور اس پر آج کے والدین سبحان فوراً ایکشن لیتے ہوئے پرنسپل کی جانب جاتے ہیں۔ ہمارے دور میں تو والدین اساتذہ کے ساتھ مل جاتے تھے اور پھر کہتے تھے کہ اگر ان کی غلطی ہے تو مزید مارو۔اگر بے قصور ہیں تو دبا کر رکھو۔ مہمانوں کے سامنے عزت کی دھجیاں اڑا کرتی تھیں اور آج کل کے بچے والدین کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔مار کھانا روزمرہ زندگی کی عام سی بات تھی۔ آج کل کے چھوٹے بچے ڈپریشن کا شکار ہیں قارئین آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ بچے جلدی نہیں بول پا رہے۔ مائیں فکرمند ہیں۔ اس کی بڑی وجوہات میں ایک یہ بات بھی شامل ہے کہ بچوں کو ان کی ذہنی استطاعت سے بڑھ کر کھلونے یا گیجٹس فراہم کیے جا رہے ہیں۔ جس سے ان کے ذہنوں پر اثر پڑ رہا ہے۔ عید کے مزے ہی نرالے ہوا کرتے تھے۔ پیسے جوڑ جوڑ کر عید کارڈز خریدا کرتے تھے اور دوستوں کی نذر یہ اشعار کیا کرتے تھے۔
سویاں پکی ہیں سب نے چکھی ہیں
یار تم کیوں رو رہے ہو تمہارے لیے بھی رکھی ہیں۔
قارئین تھوڑا سا اگر مزید آگے کے دور کی تحقیق کی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ یہ بچپن کا سنہرا ترین دور تھا جس میں بغض، عداوت کی ABC نہیں آتی تھی۔ موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھر میں حقیقی قہقہے لگاتے تھے۔ ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور ادھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔محلے میں کوئی چیز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا۔ گھروں میں خط آتے تھے ، ڈاکیا گھر کا فرد شمار ہوتا تھا، گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے، بخار یا یرقان کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کر دیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہو جایا کرتے۔ اس دور میں گفتگو ہی گفتگو تھی، باتیں ہی باتیں تھیں۔ بلڈ پریشر، شوگر، ٹینشن کس بلا کا نام ہے کچھ معلوم نہیں تھا۔ لیکن اب عصر حاضر میں چیزوں میں تغیر آ چکا ہے اور بندوں کے رویوں میں بھی۔ رب جلیل سے دعا ہے کہ نئی نسل ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رہے۔