ہزاروں میں ایک وزیر اعظم
تحریک انصاف کے ملک بھر کے وفاقی و صوبائی وزراء ترجمانوں، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، سینیٹروںکے علاوہ کے پی اورپنجاب کے وزراء اعلیٰ سمیت پی ٹی آئی کے جملہ عہدیداوں کا شمار کیا جائے تو ان کی تعداد قریبا ً قریباً ایک ہزار سے زیادہ بنتی ہے بلکہ کافی زیادہ بنتی ہے مگر اس ہجوم کے ہوتے ہوئے بھی وزیر اعظم عمران خان بالکل تنہا نظر آرہے ہیں ۔اس حقیقت کا اندازہ ہمیںبہت پہلے ہو چکا تھا مگر پھر بھی اس امید پر کہ شائد وزیر اعظم کی اس فوج میں سے کوئی بھی تو سامنے آجائے جو اپنے ذاتی فائدہ پر پارٹی سربراہ کے ویژن کو ترجیح دے دے مگر اب جبکہ دو ایک روز پہلے وزیر اعظم نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے حکومتی سیٹ اپ سے اپنے نکالے جانے کے خدشات کاببانگ دھل خدشہ ظاہر کر ہی دیا تو ہمیں بھی یقین مانیئے اپنی امید دم توڑتی نظر آنے لگی ہے اور ہمارے زہن میںپی پی پی سے تعلق رکھنے والے ممتاز قانون دان چوہدری اعتراز احسن کی ایک مقبول غزل کا یہ شعر یکدم عود آیا ہے ؛
ہمسفر چاہیے ہجوم نہیں
اِک مسافر ہی قافلہ ہے مجھے
در اصل یہ وہ اِک مسافر ہی ہے جو اُنہیں یعنی وزیر اعظم عمران خان کومیسرنہیں آیا اور اگر آجاتا تو یقینا آج یہ نوشتہ دیوار چسپاں ہوتا نہ ہی نکالے جانے کے خدشات انہیں آ ن گھیرتے ۔ سبھی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس ٹیم ہی نہیں ،ایک بندہ بھی اُن کے پاس ایسا نہیں کہ جسے حکومتی مشینری چلانے کا اھل قرار دیا جاسکے اور بالفرض محال اگر دو اِک بندے ایسے ہوں بھی تو وزیر اعظم کے ارد گرد گھیرا ڈالے انہیں آگے آنادینا ہی نہیں چاہتے ۔جہاں تک ہمارے ذاتی مشاہدے کا تعلق ہے تو یہ دو اِک بندے ایسے موجود ہیں بھی کہ جنہیں اگروزیراعظم بذات ِ خود اپنے قریب کر لیتے تو یقینا یہی دو اِک وزیر اعظم کے لئے قافلہ ثابت ہوجاتے اورآج اُنہیں یہ کہنا نہ پڑتا کہ،مجھے نکالا گیا تو میں زیادہ
خطرناک ثابت ہوں گا ۔وزیر اعظم کے اس فقرے کو اپوزیشن رہنماؤں نے آڑے ہاتھوں لینا ہی تھا سو انہوں نے لیا جن کا کہنا ہے کہ بے شک عمران خان نکالے جانے کے بعد سڑکو ں پر نکلیں مگر انہیں اپنے آمنے سامنے دائیں بائیں کوئی کھڑا نظر نہیں آئے گا۔اب اپوزیشن راہنماؤں کے اس فقرے کو ہی لے لیا جائے تو اُن کا یہ فقرہ بالکل بجا ہے اورہمارے خیالات کا عکاس بھی ہے اسی لئے ہم بھی تھوڑی سے بات آگے بڑھائے دیتے ہیں ۔ بالکل صحیح کہا گیا کوئی کھڑا نہیں ہوگا بلکہ وہ زلفی بخاری تو بہت عرصے ہوچلا دکھائی نہیں دے رہے بلکہ اب تو شہزاد اکبر بھی قافہ چھوڑ چکے ہیں اور پتہ نہیں شہزاد اکبر کے بعد اگلہ کون ہوجو عمرانی قافلہ چھوڑ دے ۔مراد سعید کی توپوں بھی خاموش ہیں وزیراعظم کے متذکرہ فقرہ کے بعد سے ابھی تک ۔ہاں البتہ شبلی فراز اور علی احمد خصوصاًفواد چوہدری صاحب کے متعلق ایسی پیش گوئی قدرے محال سی ہے۔ فواد چوہدری کے متعلق، قطع نظر اُن کی ماضی کی سیاسی وابستگیوں کے ،شائد وہ عمرانی قافلے کاساتھ نہ چھوڑیں جو اب بھی تنہا موجودہ نازک صورتحال میں پی ٹی آئی خصوصاً وزیراعظم کا بھرپور طریقے سے دفاع کررہے ہیں ۔ہم یہاں یہ بھی واضع کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مخلص نظریاتی ساتھیوں کا ساتھ نہ دیئے جانے کے علاوہ خود وزیراعظم کابھی ان حالات کے پیدا کرنے میں بڑا عمل دخل ہے۔ وہ اسطرح سے کہ انہوں نے شروع ہی سے یعنی حکومت سازی کے مرحلے پر ہی مخلص نظریاتی لوگوں پر جماعتی دفاداریاں تبدیل کرنے والے الیکٹیبلزکو فوقیت دی اور نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق میں بھی انہیں وزارتوں اہم عہدوں سے نوازا جو نظریاتیوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان محب وطن ہیں اور دیانتدار بھی ہیں مگر جن الیکٹیبلزکا انتخاب انہوں نے کیا حکومتی ٹیم کیلئے انہیںملکی سیاسی عمل کسی صورت دیانتدار تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔تو دیکھا جائے تو یہی سب سے بڑی وجہ بنی ہے ٹراسپیرنسی انڑنیشنل کی پاکستان میں کرپشن میں اضافہ کے حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹ کی جو دو روز پہلے سامنے آئی ۔موقع غنیمت جانتے ہوئے دو اِک لائنیں لکھ ہی دیں کہ اگر ٹراسپیرنسی انڑ نیشنل کی رپورٹ پر تنقید ہو رہی ہے تو چار روز پہلے اس رپورٹ کو بھی تو سراہا جانا چاہیے جس میں پاکستان میں 5.37جی ڈی پی گروتھ کا زکر کیا گیا ہے ۔مگر بدقسمتی یہ کہ جب وقت الٹا ہونے لگتا ہے تو خوبیاں ماند اور خامیاں چمکنے لگتی ہیں ۔او ر پھر دیکھا جائے تو یہ الٹا وقت جو وزیراعظم عمران خان پر آیا ہے یہ اُن کی نہیں بلکہ اُن کے منتخب کئے جانے والے الیکٹیبلز کی مہربانیوں کی وجہ سے آیاہے جو ایسے ہی بُرے وقتوں میں قافلے چھوڑ دینے میں ہی اپنی سیاسی بقاء سمجھتے ہیں ۔ان عوامل کے علاوہ ایک اور غلطی اُن سے یہ سرزد ہو ئی کہ انہوں نے سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھتے ہوئے اسے کھیلااور جیسے کرکٹ ٹیم میں کارکردگی نہ دکھانے والے کھلاڑی وہ تبدیل کرتے رہے بالکل اسی طرح حکومتی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی وہ شروع سے آج تک تبدیل کرتے چلے آ رہے ہیں جس سے بھی باقی حکومتی ٹیم میں مایوسی پیدا ہونا لازمی امر ہے ۔کرکٹ اور سیاسی ٹیم میں فرق ہوتا ہے کرکٹ ٹیم ملک و قوم کانام روشن کرنے کیلئے کھیلتی ہے جبکہ سیاسی ٹیم ملکی قومی مفاد نہیں بلکہ ذاتی مفادات کیلئے کھیلتی ہے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ایک اُن کی اھلیہ خاتوں اول کے سوا کوئی ایسا نہیںنظر آرہاجسے’’ وزیر اعظم‘‘ عمران خان کی بجائے عمران خان کی ذات کے حوالے سے مخلص کہا جاسکے ۔مگر اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھلے عمران خان وزیراعظم رہیں یا نہ رہیں مگر اُن کا عمرانی قافلہ ملکی سیاسی عمل کے پُر پیچ راستوں پر چلتا ہی رہے گا مگر ہماری اُن سے یہی درخواست ہے کہ اگرخدا نخواستہ کل کلاں کوانہیں برطرف کر بھی دیا جاتا ہے توبرائے مہر بانی انہیں ’’کسی ‘‘کیلئے بھی خطرناک ثابت نہیں ہونا چاہیے یہ سیاست ہے اور سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوا کرتی کل کو وہ پھر مگر تجربہ کار ٹیم کیساتھ وزیراعظم بن سکتے ہیں ۔اگر نواز شریف تین بار بن سکتے ہیں تو عمران خان دوسری بار کیوں نہیں وزیراعظم بن سکتے بشرط ِ اگلی باراُن کے وژن کو فالو کرنے والی مخلص نظریاتی ، تجربہ کار ٹیم ساتھ ہو۔