حکومت کیا کر سکتی ہے؟
ضمنی یا منی بجٹ عام آدمی کے علاوہ ٹریڈرز‘ امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کیلئے ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف نے 700 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا سخت مطالبہ کیا تھا جبکہ ہماری حکومت 356 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر رضامند ہوئی۔ مجموعی طورپر 343 ارب روپے کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرکے 17 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق 343 ارب روپے کی اضافی وصولی سے جی ڈی پی میں 0.6 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے۔ آئی ایم ایف کی دوسری شرط سٹیٹ بنک کو خودمختاری اور آزادی دینا ہے۔ سٹیٹ بنک کے مانیٹری اورفسکل بورڈ کو تحلیل کرنا مناسب نہیں۔ ایف بی آر کا رواں مالی سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5829 ارب سے بڑھا کر 6100 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ 2022ء میں مزید مہنگائی‘ روپے کی قدر میں کمی‘ قرضوں‘ کرنٹ اکائونٹ‘ تجارتی خسارے‘ افراط زر‘ غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔
2018ء تا 2020ء امریکہ نے پاکستان کو سب سے زیادہ سویلین امداد دی۔ پاکستان سالانہ 800 طلباء پیشہ ور افراد امریکہ بھیجتا ہے۔ پنجاب میں چھ جامعات کے ساتھ شراکت داری ہے۔ طلباء کو انگریزی سکھائی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں 10 ہزار نوجوانوں کیلئے کاروباری مواقع پیدا کئے۔ آئی ایم ایف میں پھنس جائیں گے۔ سال میں ادویات 200 فیصد مہنگی‘منی بجٹ سے مزید بحران‘ متعدد کمپنیوں نے سٹاک غائب کر دیا۔ قیمتوں میں پھر ہوشربا اضافے کا امکان‘کھاد مل نہیں رہی‘گندم کا بدترین بحران آنے والا ہے۔ باقی حکمرانوں کی طرح عمران خان کے ارد گرد بھی مافیاز جمع ہیں۔ اسمبلی میں موجود اور سابق وزیروں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیں۔ ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ ترسیلات زیر میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں 11.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک سے مجموعی طور پر 15.8 ارب ڈالر آئے۔ بیرون ملک افرادی قوت 27 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس وقت 70 لاکھ سے زیادہ پاکستانی دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں۔ ان افراد کی بھیجی جانے والی رقوم کا حجم دنیا میں دسویں نمبر پر ہے۔ 2030 ء میں ہماری آبادی24 کروڑ ہو جائے گی اور 2050ء میں 38 کروڑ ‘ اس وقت رقبہ اتنا ہی ہوگا۔ وسائل بھی اتنے مشکلات کتنی بڑھ جائیں گی۔ ایک ملک اپنی قومی سلامتی کا ہدف اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب وہاںرہنے والے لوگ مطمئن زندگی بسرکر رہے ہوں۔
موجودہ حکومت نے اس سمت میں عملی پیش رفت کرتے ہوئے ایک پانچ سالہ قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس قرض مانگنے جانے کے نتیجے میں کسی نہ کسی پہلو سے قومی سلامتی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور قرض لینے کے لئے اس کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں۔ اور جب شرائط مانتے ہیں تو کہیں نہ کہیں قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔ حکومت کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ تو مل جائے گا‘ لیکن لوگ مہنگائی کے طوفان کا کیونکہ مقابلہ کرسکیں گے۔ نیپرا نے نومبر 2021ء ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4 روپے 30 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کر دی ہے۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ پچھلی تاریخوں میں کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اول تو بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا عمل ہی الجھا دینے والا ہے۔ جب تک ہم آبی ذخائر تعمیر نہیں کرتے یا بجلی بنانے کے جدید ترین متبادل ذرائع استعمال نہیں کرتے توانائی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ رواں ماہ کے پہلے 9 دنوں میں ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں 61 فیصد کی ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے‘ ٹیکسٹائل کی پیداوار 290 ملین ڈالرکم رہی ہے۔ پیداوار میں اس کمی کی وجہ گزشتہ ماہ صنعتوں کو گیس کی سپلائی 15 روزکا تعطیل بتائی جا رہی ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کا جہاں ملک کی پیداوار میں آٹھ اور برآمدات میں 60 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان ایشیا میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ جہاں 400 سے زیادہ ٹیکسٹائل فیکٹریاں اور ہزاروں گھریلو صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ بڑی حد تک کپاس بھی درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ سیاست میں ایک ہی سوال زیر بحث رہتا ہے کہ حکومت اپنی پوری مدت پوری کرے گی۔ وزیراعظم تین ماہ کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ شہباز شریف کہتے ہیں شفافیت کا نعرہ دھوکہ تھا۔ جبکہ مریم استعفی کا تقاضا کر رہی ہیں۔ اقتدار کے پہلے 100 دنوں میں بجلی اور گیس کی قیمت میں کمی کا وعدہ کیا تھا۔ 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان مذاق بن کر رہ گیا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کو ساڑھے گیارہ فیصد کی سطح پر لے جانا ہے۔
مہنگائی کی شرح ساڑھے 20 فیصد سالانہ بڑھ گئی ہے۔ محکمہ انٹی کرپشن کی موجودگی میں ہر جگہ کرپشن کا دور دورہ ہے۔ سندھ کی سیاست میں پی پی پی‘ پی ڈی ایم کی جانب سے فروری اور مارچ میں وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا عندیہ دینے کے بعد تیزی آ گئی ہے۔ سندھ شہری حقوق کے حوالے سے شہری اور دیہی سیاست میں تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لسانی سیاست کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے لئے بلدیاتی معرکہ جیتنا چیلنج ہے۔ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کیلئے دو لاکھ 50 ہزار مشینیں درکار ہوں گی۔ مقامی حکومتوں کے ذریعے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا بھی شامل ہے۔