انگلستان میں پاکستانی سیاست کا چسکا
انگلستان میں اپنی ’’دیسی عمر‘‘ کا آدھا حصہ گزارنے والے میرے بعض وہ کرم فرما جنہیں برطانوی سوسائٹی میں اب سینئر سٹیزن کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے‘ یہاں کی طویل بودوباش کے باوجود پاکستانی سیاست کا ’’سواد‘‘ لینے سے اس عمر میں بھی باز نہیں آرہے۔ اٹھتے بیٹھتے‘ صبح و شام حتیٰ کہ بیروزگاری الائونس پر ہوتے ہوئے بھی اپنے اس سیاسی چسکے کو وہ کسی حال میں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ جس روز سے اب اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے‘ انکے دل و دماغ پر ایم پی اے‘ ایم این اے‘ سینیٹر‘ وزیر اور کسی بھی وزیراعلیٰ کا ایڈوائزر برائے اوورسیز پاکستانیز بننے کا بھوت شدت سے سوار ہوگیا ہے۔ بعض دوست تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے آئندہ انتخابات سے قبل ٹکٹ کے حصول کیلئے ابھی سے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دیئے ہیں۔ اسی طرح بعض کرم فرمائوں نے اپنی عمر اور علالت کی پرواہ کئے بغیر علاج کی غرض سے یہاں آئے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاںمحمد نوازشریف کے ’’ایون فیلڈ‘‘ کے اردگرد سخت سردی کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر چہل قدمی کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ اس امید پر کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے میاں صاحب سے شاید اپنی ٹکٹ کی دیرینہ خواہش کا وہ اظہارکر سکیں۔
مجھے اپنے ایسے دوستوں پر دکھ تو ہوتا ہے مگر انکی کبھی نہ پوری ہونیوالی ٹکٹ کے حصول کی اس خواہش پر انکی بے چارگی پر ترس بھی آتا ہے۔ 40 برس تک سخت سردی اور برف باری میں انکی محنت مزدوری اورپھر مکانوں پر حاصل کی گئی مورٹگیبج اقساط کی بدستور ادائیگی دیکھتے ہوئے انکے رکن اسمبلی یا وزیر مشیر بننے کی خواہش پر انہیں ’’مَت‘‘ دینے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ دوستوں میں کچھ ایسے دوست بھی شامل ہیں جو برطانیہ میں اپنی مدد آپ کے تحت اب تک قائم کی گئی متعدد مسلم لیگیں تبدیل کرچکے ہیں۔ کچھ دوستوں نے بغرض علاج یہاں آئے میاں صاحب کے قریب تر ہونے کیلئے اپنے یوٹیوب چینل بھی کھول لئے ہیں کہ شاید ایون فیلڈ سے انہیں ملاقات کا بلاوا آجائے۔ اسی طرح بعض دوستوں نے ایون فیلڈ کے گردونواح میں صحافت کے نام پر اپنی مفاداتی سیاسی ریڑھیاں بھی لگائی ہیں تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے میاں صاحب تک انکی آواز پہنچ سکے۔
ایسے کرم فرمائوں کو آخر کس طرح سمجھایا جائے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی بنیادی ذمہ داری خوشحالی کے بعد صرف اور صرف وطن عزیز زرمبادلہ بھجوانے تک محدود ہے۔ برطانیہ میں مختلف پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے آئے بھگوڑے اور بیمار لیڈروں سے یہ توقع رکھنا کہ انکے ہمراہ اتروائی تصویر یا ان سے راہ چلتی ملاقات پسند کی ٹکٹ جاری کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ دن کی روشنی میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ یہاں کے ’’دشتِ سیاست‘‘ میں صبح و شام شفٹ ورک کرتے مسلم لیگی کارکنان اور عہدیداران کی ایک بڑی تعداد کو گم ہوتے چونکہ میں قریب سے دیکھ چکا ہوں اس لئے انکی اس سوچ پر کہ خوشحالی کی منازل طے کرنے کے بعد پاکستانی سیاست میں وہ پھر سے اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں‘ حیرت ہی نہیں‘ دکھ بھی ہوتا ہے۔ بعض دوستوں کی تو یہ بھی خواہش ہے کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور صاحب کی طرح انکی ایڈجسٹمنٹ بھی کسی ایسی سیاسی پارٹی سے ہو جائے جس میں اگر زیادہ نہیں تو انہیں کم از کم پروٹوکول لیول کا کوئی صوبائی منصب تو مل جائے۔ اس خواہش کی تکمیل کیلئے وہ طویل المدتی سیاسی سرمایہ کاری کرنے کیلئے بھی تیار نظرآتے ہیں۔ اس بارے میں اگلے روز پنجاب کے سابق صوبائی وزیر برائے کواپریٹو و جیل خانہ جات چودھری محمد ریاض سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پاکستان میں سیاست کرنا اتنا آسان نہیں جتنا باالعموم ہمارے اوورسیز پاکستانی تصور کرتے ہیں۔ آپ کا ہفتہ وار ’’ولایت نامہ‘‘ میں پڑھتا ہوں اس لئے آپ کے بتائے سیاسی ٹوٹکوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں جیل سے رہا ہوا ہوں۔ قصور کیا تھا؟ قصور یہ تھا کہ گزشتہ چالیس برس سے اپنے قائد محمد نوازشریف کا سیاسی ورکر ہوں جو موجودہ حکومت کو قطعی پسند نہیں۔
1992ء میں گوجر خان میں رکھے تاریخی جلسے کے آپ گواہ ہیں جہاں قائد نوازشریف صاحب نے پارٹی سے میری محبت اور دی گئی قربانیوں پر مجھے اپنا بااعتماد ورکر قرار دیا مگر آج کدھر گئیں وہ شخصیات جو میرے اس جلسہ میں سٹیج پر موجود تھیں؟ اور میرے قائد نوازشریف کیلئے ہر قربانی دینے کا انہوں نے عہد کیا۔ مگر افسوس! ذاتی مفادات کیلئے انہوں نے چپکے سے سمجھوتا کرلیا۔ نوازشریف کے حق میں ان نعرے لگانے والوں کو آج جب موجودہ حکومت کا حصہ دیکھتا ہوں تو انکی سیاسی سوچ پر شرم آتی ہے۔
برطانیہ میں مسلم لیگ (ن) کو یکجا کرنے میں میرا کیا ہوم ورک بھی آپ سے قطعی ڈھکا چھپا نہیں۔ منافقانہ رویہ سے مجھے نفرت ہے۔ اس لئے آج تک اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) اور اپنا قائد محمد نوازشریف کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رکھا ہے۔ جانتا ہوں کہ 95, 92ء کی دہائی میں لندن‘ لوٹن‘ برمنگھم‘ مانچسٹر‘ بریڈفورڈ‘ لیڈز اور دیگر شہروں میں کارکنان نے بھرپور قربانیاں دیں مگر مشرف دور کے ساتھ ہی زیادہ لوگ حوصلہ ہار گئے اور اپنی سوچ کا محور دیگر مسلم لیگی دھڑوں کی جانب موڑ لیا۔ مسلم لیگ (ن) جوائن کرنیوالوں سے میری اب بھی یہی درخواست ہوگی کہ وہ محض وزیر‘ مشیر بننے کی خواہش کے بجائے پارٹی کو مضبوط کرنے اور اپنے جذبۂ قربانی کا عملی ثبوت پیش کرنے کیلئے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کریں کہ سیاسی جدوجہد میں بے لوث قربانی ناگزیر ہے۔