ظالمو! قاضی کہاں کہاں یاد آئے گا ؟
قاضی حسین احمد کی نویں برسی چھ جنوری کو خاموشی سے گزر گئی ،ایسی خاموشی جس میں کئی طوفان پوشیدہ تھے ۔قاضی حسین احمد کو زندہ و تابندہ حیثیت حاصل ہے ۔ان کا تذکرہ بے مثل ہے ، وہ جماعت اسلامی کے امیر بنے تو انہوں نے اس مذہبی جماعت میں ایک نیا سیاسی رنگ بھرا ۔اس میں جوش اور ولولہ بھی شامل تھا ۔ان کی زندگی کا بڑا امتحان جہاد افغانستان کی صورت میں پیش آیا ۔سوویت روس کی نظریں زار شاہی زمانے سے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں پر جمی ہوئی تھیں ۔سوویت روس نے بالآخر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے افغانستان میں فوج داخل کر دی ۔افغانستان ایک بنجر علاقہ ہے ایک سپر پاور جب اس علاقے میں قدم رکھتی ہے تو اس کی منزل کوئی اور ہوتی ہے اور اس کا نشانہ کوئی اور بنتا ہے ۔قاضی حسین احمد کی دور بین نگاہوں نے بھانپ لیا کہ سوویت روس کی افواج افغانستان میں سیر و تفریح کے لیے نہیں گھسیں بلکہ ان کامقصد پاکستان کو روندتے ہوئے گوادر کی بندر گاہ پر قبضہ کرنا تھا ۔اس سنگین خطرے کی روک تھام کا فریضہ قاضی حسین احمد نے سنبھالا ۔اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیا ء الحق نے بھی قاضی حسین احمد کے تجزیے سے اتفاق کیا اور پھر ایک ایسا جہاد شروع ہواجس نے بیس برس کے اندر سوویت روس کی افواج کو افغانستان سے مار بھگایا ۔اس کا ایک نتیجہ اور بھی نکلا کہ مشرقی یورپ کے ملک کیمونزم کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور خود دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور یوں کیمو نزم کا سونامی اپنی موت آپ مر گیا۔قاضی حسین احمد کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔افغان جہاد کے دوران جماعت اسلامی کا ہیڈ آفس منصورہ ایک مینارہ نور کی طرح جہادی لشکروںکو کامیابی کے راستے پر گامزن ہونے میں مدد گار ثابت ہورہا تھا ۔
قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ایک مذہبی گروہ سے اوپر اٹھا کر سیاسی گرو بنا دیا ۔ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تو اس کی نکیل جماعت اسلامی کے توانا ہاتھوں میں تھی۔ آئی جے آئی نے انتخابی معرکے لڑے اور کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کیں ۔
میاں نواز شریف پہلی بار آئی جے آئی کے کندھوں پر بیٹھ کر وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچے ۔ جماعت اسلامی جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی وفاقی کابینہ کا سرگرم حصہ تھی خاص طور پر وزارت اطلاعات واپڈا اور اقتصادی منصوبہ بندی کے شعبے جماعت اسلامی کی رہنمائی میں ملک کی سیاست کو صحیح رخ دینے میں کامیاب ثابت ہوئے ۔آئی جے آئی کا حصہ بن کر اور افغان جہاد کی کامیابیوں سے سبق سیکھ کر جماعت اسلامی نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا علم بلند کیا ۔جماعت اسلامی کے نوجوانوں نے جہاد کشمیر میں سرگرم کردار ادا کیا ۔کشمیر جہاد میں جماعت اسلامی نے اپنے اعلیٰ عہدوں پر فائز راہنمائوں کے بیٹوں کی بھی قربانی دی ۔جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے گھر بار نوجوان شہیدوں کے خون سے گل و گلزار بن گئے۔جماعت اسلامی کے جہاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے دنیا میں تبدیلی کی تیز تر ہوا ئوں کا اثر قبول کیا ۔وہ جانتے تھے کہ مشرقی یورپ کے ملکوں کی غلامی کی بیڑیاں ٹوٹ گئی ہیں سوویت روس کے مقبوضہ ملکوں میں بھی آزادی کا سورج طلوع ہوا اور یوں کشمیر کے جہاد کی باگ ڈورپہلی مرتبہ خود کشمیری نوجوانوں نے سنبھالی۔ اب انہیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں تھی ان کے اپنے جذبے سچے اور جوان تھے اوروہ بھارتی افواج کے جبر سے نجات پانے کے لیے خود میدان میں اتر آئے ۔
بلاشبہ پاکستان اور آزاد دنیا کشمیریوں کی سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی حمایت کر رہی تھی ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیری جہاد با مقصد اور با مراد بنانے میں خود کشمیری نوجوانوں نے کردار ادا کیا ۔ قاضی حسین احمد کی زندگی کا یہ دوسرا بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے کشمیریوں میں آزادی کی روح پھونک دی تھی ۔
قاضی حسین احمد کی کن کن باتوں کو یاد کریں ، جب انہوں نے ملک کے اندر سماجی ظلم و ستم کے خلاف جھنڈا لہرایا تو یوں لگا کہ سماج دشمنوں کے در و دیوار لرزہ بر اندام ہوگئے ہیں ۔جہاں ظلم ہوتا تھا قاضی حسین احمد وہاں لٹھ اٹھا کر پہرے دار کا کردار ادا کرتے ۔قاضی صاحب نے معاشرے کے اندر مافیاز کے ناسور کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہے۔قاضی صاحب مجبوروں، بے کسوں ، مظلوموں، بے سہاروں کے لیے سہارے کے طورپر سامنے آئے ۔ہر مجبور شخص مدد کے لیے قاضی صاحب کی طرف دیکھتا تھا اور قاضی صاحب مسیحا بن کر ان کے دکھوں کا درماں کر رہے تھے ۔قاضی صاحب کے سیاسی کیریئر کی یہ تیسری بڑی کامیابی تھی ۔ایم ایم ا ے کا دور تو ہر ایک کے سامنے ہے۔
قاضی صاحب قائد اعظم اور مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد کے بعد ایک بڑے مفکر اور اسلامی سکالر کے طور پر سامنے آئے وہ اقبال کے سچے عاشق تھے۔اقبال کا اردو اور فارسی کلام انہیں ازبر تھا اور وہ اپنی تقاریر کے دوران مجمع کے جذبات کو گرمانے کے لیے اقبال کے اشعار کا بر محل استعمال کرتے ۔قاضی حسین احمد کا شمار دنیا کے عظیم رہنمائوں میں کیا جا سکتاہے ۔انہوں نے پاکستان کی سیاسی اور مذہبی سیاست پر ان مٹ نقوش ثبت کیے۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے تاکہ ہم منزل مراد تک پہنچ سکیں ۔
مجھے اللہ نے یہ عزت دی کہ میں نے قاضی حسین احمد کی زندگی کا آخری ویڈیو انٹریو دسمبر کے آخری ہفتے میں ریکارڈ کیا ،اس کے بعد وہ پشاور چلے گئے جہاں دل کی بیماری سے وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔مجھے اس انٹر ویو کے لمحات اور اس دوران قاضی صاحب کی گفتگو ہمیشہ یاد رہے گی ۔