عوام کی پریشانی میں مسلسل اضافہ
پہلے کسی بھی حکومت میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کا اس قدر بدترین بحران دیکھنے میں نہیں آیا جتنا اس حکومت میں ہے۔ پہلے بھی گھریلو صارفین کی شکایات ہوتی تھیں لیکن ملک بھر میں گھریلو صارفین کیلئے گیس بندش کا معاملہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت کے وزراء نے یہ انکشاف کیا ہے کہ گیس بحران کے باعث ہم نے انڈسٹری کو گیس بند کی تھی جس پر انڈسٹری مالکان نے اعلٰی عدلیہ سے رجوع کرلیا اور حکومتی فیصلے پر عدالتی حکم امتناعی کے باعث ہم نے انڈسٹری کو گیس فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے جس کے باعث گھریلو صارفین گیس سے محروم ہیں۔
ایسے میں حکومت چونکہ عوام کی نمائندگی کرتی ہے تو حکومت کو چاہئے تھا کہ اعلٰی عدلیہ کے حکم امتناعی پر اپیل دائر کرتی اور گھریلو صارفین کی پریشانی سے اعلٰی عدلیہ کو آگاہ کیا جاتا تو یقینی طور پر انڈسٹری مالکان کو گیس فراہمی کا حکم امتناعی ختم ہوجاتا لیکن ماضی کی طرح یہ حکومت بھی سرمایہ داروں اور انڈسٹری مالکان کے تحفظ کی ضامن بنی ہو ئی ہے جس کے باعث نیک نیتی کا فقدان ہے اور گھریلو صارفین ملک بھر میں گیس بندش سے پریشان ہیں۔
کراچی میں کلفٹن جیسے پوش علاقے میں گھروں میں گیس نہیں آرہی لیکن پوش علاقے کے لوگ ایل پی جی یا دیگر ایندھن کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔ غریب آبادی کے علاقوں کے لوگ جو پہلے ہی کھانے پینے سے مجبور ہیں‘ وہ کس طرح سے گزر بسر کر رہے ہوں گے؟
حکومتی وزراء کی جانب سے گھریلو صارفین کے لئے گیس بحران پر صرف بیان دیکر خاموشی اختیار کرلینا‘ عوام دشمنی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر اعلٰی عدلیہ سے رجوع کرکے انڈسٹری کا گیس فراہمی جاری رکھنے کیلئے حکم امتناع ختم کرائے۔ 18ترمیم کے مطابق صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہئے۔
انڈسٹری مالکان اپنی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین فرنس آئل کے استعمال کی لاگت کے حساب سے منافع رکھ کر کرتے ہیں۔ انڈسٹری کو گیس کی فراہمی سے ان کے منافع میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ملک میں گیس ہو تو انڈسٹری کو دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسے حالات میں انڈسٹری مالکان کے منافع میں بھاری اضافہ کرانا جب گھریلو صارفین گیس بندش سے پریشان ہوں‘ عوام دشمنی کے مترادف ہے۔
جنرل مشرف کے دور حکومت میں باقاعدگی سے ہر سال ستمبر سے لیکر مارچ تک کے دورانیہ میں انڈسٹری کو اعلانیہ گیس بند کردی جاتی تھی اور کبھی بھی گھریلو صارفین یا سی این جی سیکٹر کو گیس بندش کے مسائل کا سامنا نہیں ہوا۔ اس حکومت نے آتے ہی سابقہ حکومت کے طویل مدتی ایل این جی منصوبوں کو کرپشن کہانی ثابت کرکے قطر سے ایل این جی معاہدے منسوخ کردیئے جس کے باعث ملک گیس کے بدترین بحران کا شکار ہے۔
حکومت کی جانب سے فرنس آئل کے استعمال سے تھرمل پاورز کو چلانے کے بجائے گیس سے بجلی بنانے کو اولین ترجیح دینے کے فیصلے سے بھی ملک گیس بحران کا شکار ہے۔ ملکی ریفائنریز میں فرنس آئل کے ٹینک بھرے ہوئے تھے اور حکومت نے مقامی سستا فرنس خریدنے کے بجائے مہنگا فرنس درآمد کرلیا جس سے ریفائنریز بند بھی ہوئیں۔
حکومت کی جانب سے فرنس آئل کے استعمال سے اجتناب اور تھرمل پاورز کو گیس سے چلانے کے فیصلے کو وسائل بچانے کی کوشش تو قرار دیا گیا تھا لیکن عملی طور پر معیشت کی حالت سب کے سامنے ہے کہ ڈالر کی اونچی اڑان‘ اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور آئی ایم ایف سے قرض لیکر قسطوں کی ادائیگی کرنے جیسے اعشاریئے معیشت کی اصل پوزیشن واضح کرتے ہیں۔
اس حکومت نے اپنے منشور میں کرپشن سے پاک حکومت کا وعدہ کرکے ووٹ لیا تھا لیکن اب دوسری بار عالمی اداروں کی رپورٹ آئی ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پاکستان میں کرپشن میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان تمام چیزوں کو عوام پھر بھی برداشت کرلیتے ہیں‘ اگر انہیں مہنگائی‘ گیس بحران‘ کھاد بحران‘ چینی بحران‘ آٹا بحران اور اہل اقتدار کے مسلسل جھوٹ سے نجات مل جائے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے عوام کی ٹیلی فون کالز کا براہ راست جواب دیا۔ اس دورانیہ میں ڈیڑھ گھنٹہ کوشش کرکے میری فون کال تو نہیں لگی لیکن جس کسی کی بھی وزیراعظم سے بات ہوئی ہے‘ حیران کن طور پر وہ پی ٹی آئی کی کارکردگی سے مطمئن اور پارٹی کارکن ہی تھا۔ ایسا کرنے سے کیا آپ حقائق کو چھپا سکتے ہیں؟ آپ عام آدمی سے بات کیوں نہیں کرتے؟ ۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ عوام مہنگائی اور درجنوں بحرانوں کے باعث حکمراں جماعت سے مکمل طور پر متنفر ہوچکے ہیں اور موجودہ حکومت مکمل طور پر ہر زاویئے سے ناکام ہوچکی ہے۔
میں سیاست کے 50سالہ تجربے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے لوگ عوام میں نہیں جاسکیں گے۔موجودہ حکومت کا سب سے پہلا نشانہ تو میڈیا ورکرز بنے۔ اس حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی میڈیا سے منسلک لوگ بدترین بے روزگاری اور معاشی بحران کا شکار ہوگئے۔ عمران خان سے میری ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ہر ملاقات میں میں نے ان سے یہی پوچھا کہ نیا پاکستان اور تبدیلی سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو مجھے کبھی بھی اس کا جواب نہیں ملا تھا۔
عمران خان کی خواہش تھی کہ میں ان کی جماعت میں شمولیت کروں۔ مجھے انہوں نے اپنے لاہور اور پشاور جلسے میں مدعو کیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پی ٹی آئی کے پشاور میں پہلے جلسے میں میں نے خود دیکھا تھا کہ اسٹیج پر حامد میر‘ ڈاکٹر شاہد مسعود سمیت تمام نامور اینکرز اور صحافی موجود تھے جو پارٹی ترانوں پر جھوم رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ میڈیا عمران خان کو اقتدار میں لارہا ہے۔ لیکن وزیراعظم نے اپنی تقریر میں میڈیا کو ’’مافیا‘‘ قرار دیکر محسن کشی کا ثبوت دیا ہے۔
سٹیزن پورٹل کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم نے درجنوں معاملات پرشکایات درج کروائیں ‘ لیکن مسائل کبھی حل نہیں ہوئے بلکہ فون کال آتی ہے کہ مسئلہ ہمارے متعلق نہیں ہے‘ آپ خود بتائیں یہ کس کو بھیجنا ہے؟ اوورسیز کے مسائل میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور ان کی جائیدادوں پر قبضے اور سرکاری اداروں میں ان کے لئے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ سٹیزن پورٹل اور اوورسیز پاکستانیز کے وزیر اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔میرے اوورسیزبیٹے آفتاب وردگ کی گاڑی کسٹم نے ناجائز پکڑ رکھی ہے ۔ میرے اوورسیز پاکستانی عزیز کے کراچی شاہ لطیف ٹاؤن میں پلاٹ پر قبضہ ہوا ہے لیکن سٹیزن پورٹل یا اوورسیز کے وزیر کو شکایات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اس وقت یہ حالات ہیں کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے اور بہتر یہی ہے کہ عوام کو کرب سے نکالنے کے لئے وزیراعظم فوری طو رپر اسمبلیاں توڑ کر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر نئے انتخابات کا اعلان کریں۔ متناسب نمائندگی کے نظام سے یقینی طور پر سیاست سے دولت کا عنصر ختم ہوجائے گا۔ اس وقت پوری قوم جس طرح موجودہ حکومت کی ناکامی سے عاجز آچکی ہے تو بالکل اسی طرح موجودہ نظام سے بھی نجات کی متلاشی ہے۔