جمعرات، 23 جمادی الثانی 1443ھ،27 جنوری 2022ء
کراچی میں سابق میونسپل کمشنر کے گھر سے اربوں کی کرنسی اور سونا برآمد
دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے۔ بڑے بڑے دولت مند آئے اور گئے۔ ان سب کے قصے آج بھی لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کیلئے سنائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت قارون کو حاصل ہے۔ جس کی دولت کے قصے زبان زدعام ہیں۔ ان بادشاہوں اور امراء کے زرو جواہر کے ملنے والے خزانوں کو دیکھ کر عقل ششدر ہو جاتی ہے کہ سونے چاندی جواہرات کے یہ انبار کس طرح جمع کئے گئے ہوں گے۔ یہ تو ماضی کا قصہ ہے ہمارے وطن عزیز میں حال کے قصے کہانیاں پڑھیئے اور سر دھنیئے ۔ یہاں دولت کے پجاریوں نے بھی سونے چاندی اور جواہرات کے ایسے خزانے جمع کیے ہیں کہ اگر فرعون، نمرود اور قارون بھی وہ خزانے دیکھ لیں تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ وہ لوگ تو بادشاہ تھے سردار تھے۔ انکے پاس دولت کے انبار ہونا عجیب نہیں۔ مگر ہمارے ہاں سرکاری خزانے کی جو تباہی کلرکوں اور سیکرٹری تک کے عہدے داروں، افسروں نے مچائی ہے۔ اس کا جواب کون دیگا۔ کبھی بلوچستان سے کبھی خیبر پی کے سے کبھی پنجاب سے سیکرٹریوں کے گھر سے خزانے برآمد ہوتے ہیں۔ سندھ اس معاملے میں آگے ہے جہاں کئی سیکرٹریوں، ڈائریکٹروں کے بعد میونسپل کمشنر کے گھر سے اتنی رقم دولت سونا اور ڈالر و ریال ملے ہیں کہ مشینوں کوان کے گننے کیلئے منگوانا پڑا۔ اگر حکومت سنجیدگی سے ایسے تمام مشتبہ افسروں کے گھروں پر چھاپے مار کر یہ چھپے خزانے برآمد کرے تو پاکستان کا قرضہ بآسانی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس کام میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
٭٭٭٭
مہنگائی سے متعلق سوال پر امریکی صدر نے رپورٹر کو گالی دیدی
لگتا ہے ہمارے ہاں پایا جانے والا گالی کلچر اب آہستہ آہستہ ان ممالک میں بھی رواج پاتا جا رہا ہے جہاں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز لوگ بدزبانی کا تصور کرتے ہی کانپ جاتے ہیں۔ مگر اب یہ دیکھ لیں امریکہ جیسے سُپرطاقت کے حکمران بھی اپنا انداز حکمرانی بھول کر جذبات کے ریلے میں بہہ جاتے ہیں۔ ورنہ مغربی معاشرے میں عوام کیلئے ہر برائی روا ہے مگر حکمرانوں کے لیے قدم قدم پر قانون کا شکنجہ کسا نظر آتا ہے۔ انہیں قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ مگر برا ہو اس مہنگائی کا جس نے امریکی صدر جوبائیڈن کا موڈ آف کر دیا اور وہ زیرلب گالی دے بیٹھے۔ وہ بھی اس صحافی کو جس نے مہنگائی کے حوالے سے ان سے سوال پوچھا کہ کیوں بڑھ رہی ہے۔
اب یہ تو برا ہو تیز رفتار حساس مائیک کا جس نے یہ گالیاں متعلقہ رپورٹر کے کان تک پہنچا دیں۔ اب اس سے پہلے کہ کوئی طوفان برپا ہوتا، امریکی صدر نے ریاست کے چوتھے ستون کے نمائندے سے فوری طور پر فون پر رابطہ کر کے معذرت کی اور کھلے دل سے معافی طلب کی۔ طویل بات چیت کے بعد بالآخر امریکی صدر اور صحافی میں تلخی چھٹ گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ ہمارے ہاں بھی مہنگائی ، بے روزگاری، غربت کے سوال پر حکمران جماعت والے دل ہی دل میں نجانے کتنی گالیاں دیتے ہیں مگر اوپر سے صرف سابقہ حکمرانوں کو گالیاں دے کر دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم کوتو چھوڑیں عام مشیر بھی سرعام مائیک کے سامنے صحافی کو فحش گالیاںدیتے نہیں شرماتے۔ شاید گالیاں دینا اور سننا ہمارا کلچر بن گیا ہے اس لیے ہمیں برا نہیں لگتا۔
٭٭٭٭
خواجہ سرائوں کو پولیس میں کوٹہ کے مطابق نوکریاں نہ دینے پر ہائی کورٹ برہم
باقی محکموں کی طرح محکمہ پولیس میں بھی خواجہ سرائوں کیلئے کوٹہ مخصوص ہے جن پر خواجہ سرائوں کو بھرتی کرنے کا حکم ہے۔مگر لگتا ہے محکمہ پولیس میں اس حکم پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ جس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پولیس والے
میرے آنگنے میں تمہارا کیا کام ہے
جو ہے نام والا وہی تو بدنام ہے
کہتے ہوئے یہ سمجھتے ہوں کہ یہ تالیاں بجانے والے خواجہ سرا پولیس میں کیاکریں گے۔ یہاں تو کام ہی مار دھاڑ کا ہوتا ہے جو ان سے نہیں ہو گا۔ اسی لیے ان کے کوٹے پر شاید مکمل مرد حضرات کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ اب خود خواجہ سرائوں کی طرف عدالت میں درخواست آئی ہے کہ ان کے کوٹہ پر پولیس میں بھرتی کا معاملہ کھنگالا جائے کیونکہ ان کے کوٹے کی سیٹوں پر درخواستیں دینے کے باوجود کسی خواجہ سرا کو نوکری نہیں دی گئی۔ بھئی یہ تو غلط بات ہے۔ جب خواجہ سرا کلرک افسر وزیر بن سکتا ہے یا بن سکتی ہے تو پولیس والی یا پولیس والا کیوں نہیں بن سکتے۔
اب تو اعلیٰ تعلیمیافتہ دراز قدمضبوط قد کاٹھ والے خواجہ سرا بھی موجود ہیں جو بھرتی کے لیے میرٹ پر پورا اترتے ہیں۔ اگر انہیں پولیس میں بھرتی کیا جائے تو وہ بھی اپنی ڈیوٹی بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے پولیس ان کے کوٹے میں ڈنڈی نہ مارے۔ ان کی بددعائیں کافی جلد اثر کرتی ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے کوٹے پر بھرتی ہونے والے ان کی آہوں اور بددعائوں کی وجہ سے سچ مچ خواجہ سرا بن جائیں۔ اگر جھوٹے سرٹیفکیٹ بنوا کر کچھ لوگ یہ نوکریاں ہڑپ کر بیٹھے ہیں تو انہیں فوری طور پر فارغ کیا جائے اور خواجہ سرائوں کو ان کا حق دیا جائے۔
٭٭٭٭
فیصل آباد میںظالم باپ کا دوسری بیوی کے ہمراہ کمسن بچی پر وحشیانہ تشدد
ایک طرف تو سوشل میڈیا پر فیصل آباد والے اپنی خوش اخلاقی اور اعلیٰ کاروبار ذہنیت کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ ہنسنے کھیلنے خوش رہنے اور کھانے پینے کے لیے مری کی بجائے فیصل آباد آئیں۔ دوسری طرف ایک بھیانک چہرہ یہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ فیصل آباد کے لوگوں کا جنہیں جگتیں کسنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ جو ہنسنے ہنسانے کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ اسی فیصل آباد میں سب سے زیادہ ملازم بچوں اور بچیوں پر تشدد کی خبریں میڈیا پر آتی ہیں۔ گذشتہ روز بھی ایک ایسی ہی بچی کی دلخراش خبر سامنے آئی جسے اس کی سوتیلی ماں اور حقیقی باپ نے تاروں اور لوہے کے پائپ سے مار مار کر زندہ لاش بنا دیا۔ یہ بچی سوتیلی ماں کے تشدد سے پہلے ہی تنگ آئی ہوئی تھی۔ گذشتہ دنوں اس نے بھوک سے بے تاب ہو کر یا خواہش کی وجہ سے سویاں نکال کر کھا لی تھیں۔جیسے ہی ماں باپ کو پتہ چلا انہوں نے اسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جب پولیس اور چائلڈ پروٹیکشن والے اطلاع ملنے پر گھر پہنچے تو بچی نہایت ابتر حالت میںز خمی پڑی تھی۔ حکومت نے بچوں پر تشدد کے خلاف جو قوانین منظور کئے ہیں کیا وہ صرف میڈیا پر نشر کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ جو لوگ بچوں پر خواہ اولاد ہو یا ملازم طالب علم ہوں یا لاوارث و یتیم پر تشدد کرتے ہیں ان کو جسمانی اذیت یا زیادتی کا نشانہ بناتے ہیںتو ان کو عبرتناک سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ کیوں معاملہ رفع دفع کرنے کے نام پر مک مکا کر کے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔بہتر ہے حکومت خود انکی وارث بن کر ایسے کیسوں کو انجام تک پہنچائے۔