پی ڈی ایم کا عزم بالجزم
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پارلیمانی نظام کیخلاف سازشیں ہورہی ہیں جسے ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ صدارتی نظام آمریت کا دوسرا نام ہے۔ ہم اسے قبول نہیں کرینگے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے مصنوعی ایمانداری کا آئینہ دکھا دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
کسی بھی جمہوری ملک میں حکومت اور اپوزیشن لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جس طرح برسراقتدار جماعت کو امورمملکت چلانے کیلئے وسائل و اختیارات حاصل ہوتے ہیں‘ اسی طرح حزب مخالف کو بھی یہ آئینی اور قانونی حق حاصل ہے کہ عوام الناس کے مسائل و مشکلات میں ان کی آواز بنے اور ان کے جذبات سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو مہمیز دے۔ اپوزیشن حکومتی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتی اور متبادل پالیسیاں بھی وضع کرتی ہے۔ اپوزیشن کی مثبت تنقیدکو خوش اسلوبی سے قبول کرنا منتخب جمہوری حکومت کا خوشگوار فریضہ ہوتا ہے اور اس تعمیری تنقید سے فائدہ اٹھا کر حکومت اصلاح احوال کی کوشش کرتی ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے‘ لیکن پاکستان میں صورتحال اس سے مختلف ہے۔ یہاں بظاہر جمہوریت رائج ہے‘ لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ نہ تو حکومت میں اپوزیشن کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی اپوزیشن جمہوری روایات کی امین دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ عام آدمی کیلئے تن و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ مہنگائی‘ لاقانونیت‘ بیروزگاری اور امن و امان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ عوام کی ان مشکلات کا حل اپوزیشن کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ اس کی تمام تر سرگرمیوں کا محور حکومت پر غیرتعمیری تنقید اور اسے اقتدار سے محروم کرنا ہے۔ وہ اس مقصد کیلئے جلسے کرتی‘ جلوس نکالتی اور مظاہرے کرتی ہے۔ اب اس نے 23 مارچ (یوم پاکستان) کے موقع پر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا پروگرام بنا رکھا ہے جس کیلئے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے تیاریاں کر رکھی ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے 23 مارچ کو دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لانگ مارچ کی تاریخ تبدیل کرنے کا مشورہ دیاہے‘ لیکن پی ڈی ایم نے اسے مسترد کرتے ہوئے اسی تاریخ کو لانگ مارچ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس کشمکش اور چپقلش کا نقصان سراسر عوام الناس کو ہوگا جن کیلئے مشکلات پیدا ہونگی‘ لیکن بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کو اس کی قطعی پروا نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں آئین اور قانون کے دائرے میںرہتے ہوئے عوامی مسائل و مشکلات کو اجاگر کریں اور ان کے قابل قبول حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔