مدارس پاکستان میں دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بحث ضرور ہو سکتی ہے کہ کیا ہونا چاہیے، کیسے ہونا چاہیے لیکن اس حوالے سے کوئی بحث نہیں بنتی کہ انہوں نے کیا خدمات انجام دی ہیں۔ اس حوالے سے مدارس اور ان کے ساتھ منسلک افراد کی خدمات لائق تحسین ہیں کیونکہ ایک ایسے ملک میں جہاں ہر دوسرا شخص مال بنانے کے چکر میں الجھا نظر آتا ہے مدارس کے لیے دن رات کام کرنے والے ناصرف بچوں کی دینی تعلیم کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ ضرورت مند افراد کی خاموشی سے مدد بھی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کاش کہ کوئی ان کی حقیقی خدمات کو سمجھتے ہوئے بہتری کے لیے کام کرے تو یقیناً ملک و قوم کا بہت فائدہ ہو گا۔ ملک میں کئی دینی مدارس دہائیوں سے کام کر رہے ہیں کئی ایسے ہیں جو سو سال سے بھی زائد تاریخ رکھتے ہیں ایسے ہی مدارس میں ایک نام جامعہ فتحیہ کا ہے۔ جامعہ کی انفرادیت ہے کہ اس کے انتظامی امور کو دیکھنے والے نسل در نسل یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ وہ کاروبار اور سیاست کے میدان میں بھی نظر آتے ہیں لیکن کوئی بھی کام جامعہ فتحیہ کی خدمت سے دور نہیں کر پاتا۔ جس طرح سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مختلف اوقات میں مختلف کام ہوتے رہتے ہیں ان دنوں مدارس دینیہ میں تعلیمی سال کا اختتام ہونے والا ہے اور مدارس میں فضلاء کے لیے دستار فضیلت کی پروقار تقریبات جاری ہیں۔ ان تقریبات میں طلبہ کے عزیز و اقارب کے علاوہ دیگر افراد کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے یہ موقع نہایت خوشی کا ہوتا ہے اس میں ترتیب اس طرح کی ہے عموما شعبہ حفظ شعبہ تجوید و قرات شعبہ درس نظامی کی تکمیل کرنے والے طلبہ کی دستار بندی کی جاتی ہے اسی سلسلہ کی ایک پروقار تقریب 1875ء سے قائم شدہ برصغیر کی عظیم وقدیم دینی درسگاہ جامعہ فتحیہ ذیلدار روڈ اچھرہ میں منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت جامعہ کے صدر سابق ایم پی اے حافظ میاں محمد نعمان نے کی اور اس میں مہمان خصوصی حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ناظم اعلی وفاق المدارس العربیہ پاکستان تھے۔ تلاوت کلام الہٰی کی سعادت پاکستان کے نامور قاری قرآن جناب قاری سید انوار الحسن بخاری نے حاصل کی اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت پاکستان کے نامور ثناء خوان حافظ حسن افضال صدیقی نے حاصل کی،دونوں حضرات کی دل موہ لینے والی آوازوں نے سماں باندھ دیا۔اس موقع پر مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ’’العلماء ورث الانبیائ‘‘ اس حدیث مبارکہ کے مطابق علماء انبیاء کے وارث ہیں یعنی علوم وحی کے کیونکہ انبیاء وراثت میں علم چھوڑتے ہیں نہ کہ مال و دولت اور اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اپنا وارث نہیں فرمایا بلکہ تمام نبیوں کا وارث فرمایا اس لیے جتنا بڑا منصب ہوتا ہے اس کے لیے کردار وافکار بھی بلند ہونا چاہئے اور اس راستے میں انبیاء کرام کو جو مشکلات و مصائب سے گزرنا پڑا علماء کو بھی اس کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ مدارس دینیہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ان کی قدر کرنی چاہیے،مدارس نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز جو لاکھوں طلبہ کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے معاشرے میں بہتری کے لئے اپنا شاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔ آج علماء کو اپنی زندگی کو دلیل بنانا چاہیے تاکہ لوگ علماء کے کردار کو دیکھتے ہوئے دین کی طرف راغب ہوں۔دینی مدارس میں رنگ ونسل کی تمیز کیے بغیر ہر علاقہ وزبان کے طلبہ پیار اور محبت سے رہتے ہوئے علم حاصل کرتے ہیں اور کبھی لسانی بنیادوں پر بدمزگی نہیں ہوئی یہ مدارس کی شاندار تربیت کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کم از کم ہر خاندان میں ایک حافظ قرآن اور عالم دین ضرور ہونا چاہیے تاکہ معاشرے سے اندھیرے ختم ہو ں علوم نبوی کی روشنی کو پھیلانے سے ہی ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔جامعہ کے صدر سابق ایم پی اے حافظ میاں محمد نعمان نے کہا کہ وہ اس خوشی کے موقع پر تشریف لانے والوں کے مشکور ہیں۔ تقریب کے شرکاء کی وجہ سے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ جامعہ فتحیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ145 سال دینی خدمات میں پیش پیش ہے اور لاکھوں افراد نے یہاں علمی پیاس بجھانے کے بعد دوسرے لوگوں کو سیراب کر رہے ہیں۔ جامعہ کا مشن گھر گھر علوم قرآنیہ کو پہچانا اور دینی وعصری علوم کے امتزاج سے تربیت یافتہ نوجوانوں کو معاشرے کی بہتری کے لیے تیار کرنا ہے۔تا کہ وہ کسی بھی شعبہ میں کام کے حوالے سے موزوں ہوں اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہم پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے کیونکہ جامعہ فتحیہ ہمارے بڑوں کی امانت ہے اور اس امانت کا حق یہ ہے کہ ہم منہج اسلاف پر کاربند رہتے ہوئے ترقی کی منازل طے کریں۔ جامعہ فتحیہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں پر تمام مسالک کے جید علماء و مشائخ پڑھتے اور پڑھاتے رہے ہیں ان میں نمایاں مولانا عبید اللہ ایوبی قندھاری، پیر محمد اشرف کھریپڑ شریف،مولانا جلال الدین بھکھی شریف، پیر مقبول حسین شاہ مراڑی شریف، مولانا سعید احمد رضوی، مولانا عطاء محمد بندیالوی، قاضی عبدالحی چن پیر، مولانا عبداللطیف جہلمی، آیت اللہ یار محمد نقوی ہیں۔آخر میں درس نظامی کے 13اور شعبہ تجوید و قرأ ت کے 31 طلباء کرام کی درستار بندی کی گئی اوران کو جامعہ کی طرف سے اعزازی شیلڈیں بھی پیش کی گئیں۔
تقریب میں جامعہ کے مہتمم میاں محمد عفان، میاں محمد اویس، حاجی عبداللطیف خالد چیمہ، شیخ الحدیث مولانا غلام شافعی،پروفیسر عبدالرشید خلیق، مفتی شاہد عبید، مفتی خرم یوسف، مولانا عبداللہ مدنی، مولانا احمد الراعی مدنی، مولانا احمدحنیف جالندھری، مولانا قاری مومن شاہ، قاری محمد قاسم بلوچ،اڈاکٹر ضیاء الحق قمر، ڈاکٹر سعید عاطف،قاری عطاء الرحمن یوسف، قاری عبدالعزیز یوسف، قاری غفران، مولانا ذیشان انجم کے علاوہ ملک بھر سے جید علماء کرام،مشائخ عظام و روحانی شخصیات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی کثیر تعدادنے شرکت کی۔
حکومت تعلیمی اداروں کا خیال رکھتی ہے۔ فنڈز مختص کیے جاتے ہیں طلباء کو ہرممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ایسے مدارس کے طلباء کے لیے بھی ایک نیا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024