اعتماد کا فقدان اور ہماری ڈانواڈول ڈپلومیسی

گزشتہ سے پیوستہ
دیگر یہ کہ، شعور سے عاری ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ سعودی منشاء کیخلاف اردگان جس خلافت کا احیاء چاہتا ہے، آیا من حیث القوم تمام پاکستانی اس خلافت کو دل سے تسلیم کر بھی سکتے ہیں. یاد رہے، سلطنت عثمانیہ کے دور میں بھی مسلمانانِ ھند کبھی عثمانیوں کے زیر کنٹرول نہیں رہے تھے. ہمارے وہ ادارے جو راتوں رات وزیراعظم کو چلتا کرتے ہیں. کیا اس خلافت کے آگے اپنے اختیارات اور من مانیوں کو سرنڈر کریں گے؟
سعودیوں کی مخالفت کے باوجود اگر آپ اردگان کی مجوزہ خلافت کیطرف بڑھتے ہیں تو کیا ہمارے شیعہ عوام اور ھمسایہ ایران ایسا پسند کرینگے؟ ہرگز نہیں، ایران اور ایران نواز اسلامی ممالک بھی ترک خلافت کو ایسے ہی نہیں مانیں گے جیسے خلافت عثمانیہ کو ایران نے پہلے بھی کبھی نہیں مانا تھا. بلکہ ایران و سعودیہ سمیت صرف خلیج کے ممالک ہی چیلنج نہیں کرینگے بلکہ افریقی مسلمان ممالک بھی ترک طاقت کیخلاف بھرپور مزاحمت کرینگے. جبکہ یورپ میں آزاد تشخص رکھنے والے چند مسلم ممالک بھی اول تو اپنااقتدار اعلی کسی چوہدری یا خلافت کیسپرد کریں گے نہیں، اور اگر ایسا کرنا بھی چاہئیں تو یورپ اس چیز کی اجازت کبھی نہیں دیگا. الغرض، یہ اردگانی خلافت کسی کیلئے دماغ کا خلل یا نیت کا فتور نہ بھی ہو تو خصوصاً ہمارے لئے ایک "سہانا سراب" اور پیچیدہ "طلائی دلدل" ضرور بن سکتی ہے.
رہی بات اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تو یاد رکھنا چاہیے کہ اسکے وجود میں آتے ہی ترکی نے اسے نا صرف تسلیم کیا تھا بلکہ آج بھی اسرائیل سے اسکے بہترین معاشی، سائنسی و سیاحتی روابط قائم ہیں اور جو بارہا پاکستان کو بھی اسے تسلیم کرنے کی ترغیبات دے چکا ہے. خلافت کے دعویدار اس ترکی کا اب عربوں کے ایسا کرنے پر اتنا چیں بچیں ہونا اگر منافقت نہیں تو بھلا اس رویے کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ ذکر ہو چکا ہے کہ اصل مسئلہ اسرائیل تو ہے ہی نہیں بلکہ اصل محرکات چوہدراہٹ پر مبنی دیرینہ عزائم ہیں. سعودیہ کے ممکنہ طور پر اسرائیل کے تسلیم کرنے کو اب ترک ایماء پر ہمارے یہاں جو اتنا گھناؤنا ایشو بنایا جا رہا ہے. کیا ہمیں بھولنا چاہیے کہ ہم خود بارہا ایسا کرنے کی نا صرف کوشش کر چکے ہیں، بلکہ آئندہ بھی یقیناً ہمیں ایسا کرنا پڑ سکتا ہے؟ عوام کو میڈیا کے زریعے اس ایشو پر سعودیہ کیخلاف برانگیختہ کرنے کے بعد جب ہم خود ایسا کریں گے تو کیا اسے تھوک کر چاٹنا نہیں کہا جائے گا؟ تمام اسلامی ممالک کے اسے انفرادی طور پر تسلیم کرنے کی بجائے اگر ایسا بطور اجتماعی اقدام ہوتا تو یقیناً اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کے زریعے بیت المقدس اور فلسطین کے ایشو پر کچھ ممالک کی قابل اعتماد ضمانتیں بھی حاصل کی جا سکتی تھیں. اعتماد کی بات کریں تو انتہائی افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی طور پر ہمیں اعتماد کے بے پناہ فقدان کا سامنا ہے. حال ہی میں براڈ شیٹ کے مالک شکایت کرتے پائے گئے کہ جب جب انہوں نے پاکستانیوں کی ناجائز دولت کا سراغ لگانے کے بعد مشرف کو بتایا تو چند روز بعد وہ رقوم اکاؤنٹ سے شفٹ کروا لی جاتیں. کیونکہ خود مشرف ان لٹیروں کو اپنی حکومت کا حصہ بنا لیتا. یوں معاہدے کی خلاف ورزی پر مبنی اس اقدام سے کمپنی کمیشن سے بھی محروم کر دی جاتی. کیا افغانستان میں طالبان کیخلاف برسرپیکار امریکی افواج کو بھی پاکستان سے ایسی شکایات نہیں تھیں؟ انکے بقول، وہ جب بھی اپنا اگلا نشانہ پاک افواج کو بتاتے، وہ اطلاع فوراً طالبان کو کر دی جاتی. جو اپنا بچاؤ تو کر ہی لیتے، الٹا امریکیوں کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا. اسی اعتماد کے فقدان ہی کیوجہ سے ھمسایہ برادر ممالک ایران و افغانستان سے بھی تعلقات ڈانواڈول رہے. عالمی معاہدات سے روگردانی پر ہمیں حال ہی میں پانچ ارب ڈالر کی خطیر رقم کا جرمانہ ہو چکا ہے. رینٹل پاور اور اس سے قبل موٹر وے کے معاملے پر ہمارے ترک کمپنیوں کیساتھ بھی ایشوز رہے. بروڈ شیٹ بھی اسی کی ایک مثال ہے. جبکہ اب چین اور ملائشیا بھی ہمارے خلاف انتہائی اقدام اٹھا چکے ہیں. ٹرسٹ ڈیفیسیت کے علاوہ اس ساری نئی ہلچل کے پیچھے کہیں سعودیہ کی خاموش شٹل ڈپلومیسی کیخلاف ہمارے دوسرے کیمپ کے دوستوں کا ردعمل تو نہیں؟ پہلے قطر اور پھر پاکستان کیساتھ بگرتے تعلقات کیبعد سعودی عرب نے حال ہی میں خاموش سفارتی کوششوں کے سلسلے شروع کئے تھے. جس کے بعد قطر سے اسکے تعلقات کی بحالی شروع ہو چکی ہے. جبکہ پاکستان کیساتھ بہتری کی حوصلہ افزا نوید ہے. جس کیخلاف ردعمل کے طور پر سعودی مخالف کیمپ کے ہمارے دوست ممالک "شاید" ہمیں باز رکھنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں. مگر ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ سفارکاری کے میدان میں ایک طرف جھکاؤ کی بجائے امریکہ و چین اور سعودیہ و ایران کے بیچ اعتدال پر مبنی توازن قائم کریں. دوست ضرور بنائیں مگر قبلہ و کعبہ اور آقا ہرگز مت بنائیں. ایکطرف سے پچاس جوتے کھانے کے بعد دوسری طرف سے بھی سو جوتے کھانے کی بجائے ہم جتنا جلد یہ سمجھ جائیں اتنا ہی ملک و قوم کے وقار کیلئے بہتر ہے. مگر کیا ہمارے رویے واقعی اتنے معقول ہیں بھی؟