لاالٰہ الا اللہ

گزشتہ سے پیوستہ
ان میں سے ہر ایک مکھی ماہر سائنسدان کی طرح جانتی ہے کہ کچھ پھول زہریلے ہیں، ان کے پاس نہیں جاتیں، ایک قابل انجینئر کی طرح شہد اور موم کو علیحدہ علیحدہ کرنے کافن بھی جانتی ہیں، جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کو پگھل کر بہہ جانے سے بچانے کے لئے اپنے پروں کی حرکت سے پنکھا چلا کر ٹھنڈا بھی کرتی ہیں، موم سے ایسا گھر بناتی ہیں جسے دیکھ کر بڑے سے بڑے آرکیٹیکٹ بھی حیرت زدہ ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہیں کہ مثال نہیں، ہر ایک میں ایسا راڈار نظام نسب ہے کہ وہ دور دور نکل جاتی ہیں لیکن اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں، انہیں زندگی کے یہ طریقے کس نے سکھائے اور انہیں یہ عقل کس نے دی؟مکڑا اپنے منہ کے لعاب سے شکار پکڑنے کے ایسے جال بناتا ہے کہ جدید ٹیکسٹائل انجینئرز بھی اس بناوٹ کا ایسا نفیس دھاگا بنانے سے قاصر ہیں۔ گھریلو چیونٹیاں (Ant) گرمیوں میں سرد موسم کے لئے خوراک جمع کرتی ہیں، اپنے بچوں کے لئے گھر بناتی ہیں، ایک ایسی تنظیم سے رہتی ہیں جہاںمینجمنٹ کے تمام اصول حیران کن حد تک کارفرما ہیں۔ ٹھنڈے پانیوں میں رہنے والی مچھلیاں اپنے انڈے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور گرم پانیوں میں دیتی ہیں لیکن ان سے نکلنے والے بچے جوان ہو کر ماںکے وطن خودبخود پہنچ جاتے ہیں۔ نباتات کی زندگی کا سائیکل بھی کم حیران کن نہیں، جراثیم اور بیکٹیریا کیسے کروڑوں سالوں سے اپنی بقا کو قائم رکھے ہوئے ہیں؟ زندگی کے گر انہیں کس نے سکھائے ؟ کیا زمین اس قدر عقلمند ہے کہ اس نے بھی خودبخود لیل و نہار کا نظام قائم کر لیا، خودبخود ہی اپنے محور پر 67.5ڈگری جھک گئی تاکہ سارا سال موسم بدلتے رہیں، کبھی بہار، کبھی گرمی، کبھی سردی اور کبھی خزاں تاکہ اس پر بسنے والوں کو ہر طرح کی سبزیاں، پھل اور خوراک سارا سال ملتی رہیں۔کیازمین نے اپنے اندر شمالاً جنوباً ایک طاقتور مقناطیسی نظام بھی خودبخود ہی قائم کر لیاتاکہ اس کے اثر کی وجہ سے بادلوں میںبجلیاں کڑکیں جو ہوا کی نائٹروجن کو نائٹرس آکسائیڈ(Nitrous Oxide)میں بدل کر بارش کے ذریعے زمین پر پودوں کے لئے قدرتی کھاد مہیا کریں؟ سمندروں پر چلنے والے بحری جہاز ، آبدوز (Submarine)اور ہوائوں میں اڑنے والے طیارے اس مقناطیس کی مدد سے اپنا راستہ پائیں، آسمانوں سے آنے والی مہلک شعائیں اس مقناطیسیت سے ٹکرا کر واپس پلٹ جائیں تاکہ زمینی مخلوق ان کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے اور زندگی جاری ہے۔زمین، سورج، ہوائوں، پہاڑوں اور میدانوں نے مل کر سمندر کے ساتھ سمجھوتا کر رکھا ہے تاکہ سورج کی گرمی سے آبی بخارات اٹھیں، ہوائیں اربوں ٹن پانی کو اپنے دوش پر اٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں، ستاروں سے آنے والے ریڈیائی ذرے بادلوں میں موجود پانی کو اکٹھا کر کے قطروں کی شکل دیں اور پھر یہ پانی میٹھا بن کر خشک میدانوں کو سیراب کرنے کے لئے برسے۔جب سردیوں میں پانی کی کم ضرورت ہوتی ہے تو یہ پہاڑوں پر برف کے ذخیرے کی صورت میں جمع ہو جاتا ہے، گرمیوںمیں جب زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ پگھل کر ندی نالوں اور دریائوں کی صورت میں میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے واپس سمندر تک پہنچ جاتا ہے۔ایک ایسا شاندار اور متوازن نظام جو سب کو سیراب کرتا ہے اور کچھ بھی ضائع نہیں ہوتا، کیا یہ بھی ستاروں، ہوا اور زمین کی اپنی باہمی سوچ تھی؟ہمارا ’’Pancreas‘‘ (لبلبہ) خون میں شوگر کو ایک خاص مقدار سے بڑھنے نہیں دیتا، دل کا پمپ ہر منٹ میں سترسے اسی دفعہ باقاعدہ منظم حرکت سے خون پمپ کرتا رہتا ہے اور ایک پچھتر سالہ زندگی میں بلامرمت تقریباً تین ارب بار دھڑکتا ہے۔ ہمارے گردے(Kidneys) صفائی کی بے مثل اور عجب فیکٹری ہیں جو جانتی ہے کہ خون میں جسم کے لئے جو مفید ہے وہ رکھ لینا ہے اور فضلات کو باہر پھینک دینا ہے۔ معدہ حیران کن کیمیکل کمپلیکس(Chemical Complex) ہے جو خوراک سے زندگی بخش اجزا مثلاً پروٹین، کاربوہائیڈریٹس وغیرہ کو علیحدہ کر کے خون کے حوالے کر دیتا ہے اور فضلات کو باہر نکال دیتا ہے۔انسانی جسم میں انجینئرنگ کے یہ شاہکار، سائنس کے یہ بے مثل نمونے، چھوٹے سے پیٹ میں یہ لاجواب فیکٹریاں، کیا یہ سب کچھ یوں ہی بن گئے تھے؟ دماغ کو کس نے بنایا؟ مضبوط ہڈیوں کے خول میں بند، پانی میں یہ تیرتا ہوا عقل کا خزانہ، معلومات کا سٹور، احکامات کا سینٹر، انسان اور اس کے ماحول کے درمیان رابطے کا ذریعہ، ایک ایسا کمپیوٹر کہ انسان اس کی بناوٹ اور ڈیزائن کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا، لاکھ کوششوں کے باوجود انسانی ہاتھ اور ذہن کا بنایا ہوا کوئی سپر کمپیوٹر بھی اس کے عشر عشیر تک نہیں پہنچ سکتا۔ہر انسان کھربوں خلیات (Cells) کا مجموعہ ہے ، اتنے چھوٹے کہ خوردبین کی مدد کے بغیرنظر نہیں آتے، لیکن سب کے سب جانتے ہیں انہیں کیا کرنا ہے، یوں انسان کا ہر ایک خلیہ شعور رکھتا ہے اور اپنے وجود میں مکمل شخصیت ہے۔ ان جینز میں ہماری پوری پروگرامنگ لکھی ہے اور زندگی اس پروگرام کے مطابق خودبخود چلتی رہتی ہے۔ ہماری زندگی کا پورا ریکارڈ، ہماری شخصیت ، ہماری عقل و دانش، غرض ہمارا سب کچھ پہلے ہی سے ان خلیات پر لکھا جا چکا ہے، تو یہ کس کی پروگرامنگ ہے؟حیوانات ہوں یا نباتات، ان کے بیج کے اندر ان کا پورا نقشہ ہے، یہ کس کی نقشہ بندی ہے؟ خوردبین سے بھی مشکل سے نظر آنے والا سیل (Cell) ایک مضبوط ، توانا، عقل و ہوش والا انسان بن جاتا ہے، تو یہ کس کی بناوٹ ہے؟ ہونٹ،زبان اور تالو کے اجزاء کو سینکڑوں انداز میں حرکت دینا کس نے سکھایا؟ ان حرکات سے طرح طرح کی عقلمند آوازیں کون پیدا کرتا ہے اور ان آوازوں کو معنی کون دیتا ہے؟ لاکھوں الفاظ اور ہزاروں زبانوں کا خالق کون ہے؟ لا الٰہ الا اللہ