ابھی جام عمربھرا نہ تھا…!

گذشتہ دنوں ایک خبر بجلی بن کر دل پر گری ہمارے بچپن کے دوست ہر دلعزیز خوش اخلاق ملنسار اور جوان بھائی محمد عمران اچانک کراچی میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے مرحوم کی نماز جنازہ مرکزی عید گاہ مظفر آباد (ملتان ) میں ادا کی گئی جس میں مقامی لوگوں کے علاوہ دوردراز سے آئے ہوئے دوست احباب مرحوم کے رشتہ داروں سیاسی اور مذہبی عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی عجیب منظر تھا ہر آنکھ نم تھی پورے علاقے میں فضاء سوگوار تھی ۔ بھائی عمران سے ہماری شنا سائی تو بچپن سے ہی تھی مگر زیادہ قرب2002ئ میں اس وقت ہوا جب ہم ربیع الاول کے مہینے میں میلاد النبی ﷺ کی محفل سجانے کا پروگرام مقامی مسجد میں ترتیب دے رہے تھے اس وقت استاذ الحفاظ حضرت قبلہ حا فظ غلام محمد دہمرایا نواز اﷲ صاحب اور فاضل نوجوان ماسٹر حافظ غلام سرور دہمرایا بھی زندہ تھے اور انکی سر پرستی میں محفل میلاد النبی ﷺ منعقد ہو رہی تھی ۔اس دوران ہم نے دیکھا کہ بھائی محمدعمران مسجد کی چھت اور دیواروں پر لائٹنگ کا انتظام کر رہے ہیں ہم حیران ہوئے ۔کہ مسجد سجانے کیلئے ابھی کسی بھی الیکٹریشن والے سے بات نہیں کی تو یہ سامان کہاں سے آیا اور کس خوش نصیب نے بھیجا ہو گا یہ بات ہمارے منہ سے نکلی ہی تھی کہ اتنے میں عمران بھائی نے اپنے مخصو ص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا استادجی ۔ میرے ابو کی الیکٹریشن کی دکان ہے اور میں مسجد میں چراغاں کرنے کیلئے ابو سے سامان لیکر آیا ہوں آپ ایک نظر مسجد کے چاروں طرف گھمائیں اور مجھے بتائیں اتنا کا فی ہے یا اور سامان اٹھا لائوں میں نے مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر چاروں طرف دیکھا توہر طرف چھوٹی چھوٹی مختلف رنگوں کی بتیاں جگمگا رہی تھیں اور ایک خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے تھا ۔ ہم نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو چہر ے پر مسکراہٹ سجائے بھائی محمد عمران جواب کے منتظر کھڑے تھے ہم نے رسمی کلمات کا اظہار کر کے انکی تعریف کی اور دعائیں دیں او ر وہ بہت خوش ہوا ان کا جذبہ دیدنی تھا وہ اس آقا و مولی ﷺ کی آمد پر چراغاں کرکے عقید ت کا اظہار کر رہے تھے جن کے آنے سے روشن جہاں ہو گیا ۔بھائی محمد عمران ایک خوش مزاج ، بااخلاق اور باصلاحیت نوجوان تھا وہ اپنے محلہ داروں سے بے لوث محبت کرتا اور یاروں کے یار تھا 2005ئ کے بعد کاروبار کی غرض سے وہ کراچی میں مقیم ہو گئے ایک مرتبہ مجھے ورلڈ سوشل فارم میں شرکت کرنے کیلئے کراچی جانے کا اتفاق ہواتو میرے چھوٹے بھائی محمد صابر حسن (جو اس وقت خودبھی کراچی میں مقیم تھے )نے بھائی عمران کو فون پر خبر دی کہ بھائی کراچی آئے ہوئے ہیں انہوں نے فوراً کال کی اپنے مخصوص انداز میں بوے استاد جی ، استاد جی یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ کراچی آئیں اور ہم سے ملے بغیر چلے جائیں انکے لہجے میں اتنی اپنائیت اور آواز میں اتنی بے تابی تھی کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور اگلی صبح ہی ان کے ہاں حاضر ہونے کا ان سے وعدہ کر لیا وہ اس وقت کلفٹن کے آس پاس رہتے تھے انکے ہاں مختصر حاضری کو دو دن کے قیام میں منتقل کرنا پڑا۔کیونکہ عمران بھائی نے گائوں سے آئے ہوئے کئی دیگر دوستوں کو بھی خبر دی انکو بھی تھوڑا تھوڑا وقت دینا پڑا اور یہ زندگی کا یادگار ٹور تھا جس میں کافی دوستوں سے ملاقات ہوئی اور کبھی نہ بھولنے والے حسین لمحات کی نعمت میسر ہوئی اس کی وجہ عمران بھائی بنے ۔ ان سے آخری بار رابطے کا ذکر کئے بغیر مضمون نامکمل ہو گا گذشتہ عید الاضحی کے موقع پر جب عمران بھائی کراچی سے ملتان آئے ہو ئے تھے تو انہوں نے فون کال کی اور عید مبارک کہا اور اکے بعد ان کا وہی انداز وہی لہجہ وہی اپنائیت اور وہی احساس دل میں جاگ اٹھا جب انہوں نے اپنے مخصو ص اور روایتی اندازمیں کیا استاد جی ، استاد جی ۔ بہت عرصہ بیت چکا ہے ملاقات کو اب کوئی مل بیٹھنے کا پروگرام بنائیں میران کچھ دن یہاں قیام ہے اس کے بعد میں کراچی واپس چلا جائوں گا ہمیں کیا خبر وہ شہر تو کیا یہ دنیا چھوڑ کر جانے والے ہیں انکی جدائی ہمیشہ کیلئے ہمارا مقدر بننے والی ہے وہ عمران جو محفلوں کی رونق ہوا کرتا تھاہمیشہ کیلئے وہاں چلا گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا ۔ بھائی عمران نے ایک بیٹا ، ایک بیوی ایک بھائی اور دو بہنیں اور والدین سوگوار چھوڑے ہیں۔
ابھی جام عمر بھرا نہ تھا کف دست ساقی چھلک پڑا
رہی دل کی دل میں حسرتیں نشاں قضاء نے مٹا دیا