درشنی پہلوان

کبھی کبھار جگہ کی بندش کی وجہ سے روٹین سے ہٹ کر بغیر تمہید باندھے کالم کے مرکزی خیال کو بتداء سے ہی لیکر چلنا پڑتا ہے۔آجکا کالم بھی شائد ان چند کالموں میں سے ایک ہے جس کیلئے مجھے کسی خاص اہتمام کی کوشش نہیں کرنی پڑی۔ اب آتے ہیں اصل مدعے کی طرف ، گْو کہ پاکستان میں عرصہ تقریبا ایک سال کے بعد جب سے میاں نواز شریف پلیٹ لیٹس میں کمی کے عْذر پر پرائے دیس پدھارے ہیں کے طویل وقفے کے بعد سیاست کی ہنڈیا پچھلے اکتوبر اس وقت سے ایک بار پھر چولھے پر چڑھی نظر آتی ہے جس دن پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کی نائب صدر نیب پیشی کے موقع پر انکے دفتر واقع ٹھوکر نیاز بیگ گئیں۔ اس دن سے اس ہنڈیا میں جو اْبال وقتی طور پر دیکھنے کو مل رہے ہیں یا یوں کہیے کہ وہ نومولود سیاسی قیادت جو حقیقت میں اب عمر کے اس پیٹے میں داخل ہو چکی ہے جہاں بالوں کی چاندنی انکے متعلق کچھ اور ہی حقیقتیں بیان کرتی ہے انکی طرف سے اس میں وقتی اْبال لانے کی کوششیں اگر کسی ناقص یا کمزور حکمت عملی کی اگر کوئی واضح نشاندہی نہیں بھی کر رہی تو پھر بھی قرائین کچھ اس بات کی چْغلی کھاتے ضرور دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ڈبل گیم ضرور کھیلی جارہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کھیل کے بیشتر کھلاڑی اپنے اپنے پتے کھیلنے کے چکروں میں لگے ہوئے ہیں تو بیجا نہ ہو گا حالانکہ یہ حقیقت سب کو پتہ ہے کہ ترْپ کے پتے کہیں اور پڑے ہوئے ہیں۔ وباؤں کے اس موسم میں جس دن سے یہ سیاسی ہنڈیا چولھے پر چڑھی ہے ایک وباء کی طرح ہر کھلاڑی کے اپنے اپنے کیمپ سے بقدرِ اْجرت اس کھیل پر بڑی دلچسپ اور حسب منشاء تبصرہ آرائی جاری ہے۔ بیشتر اسکے یہ خاکسار بھی اس کارِ خیر میں اپنا کوئی حصہ ڈالے عرض صرف اتنی ہے کہ نہ تو اپنا کوئی سیاسی کیمپ ہے اور نہ اپنا ادارہ ، نہ اپنا مْرشد، نہ اپنا استاد اور نہ اپنا ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے ہیں کہ ایسی کسی یاوہ گوئی سے کام لیا جائے جس سے اس امانت میں جو اللہ تعالیٰ نے قلم پکڑا کر بخشی ہے اس میں خیانت کا کوئی عنصر اْبھرے لہذا اس ضمن کسی قسم کی تبصرہ آرائی یا آنیوالے حالات کے بارے کوئی قیاس آرائی کرنے سے پہلے یہ خاکسار اپکی آنکھوں کے سامنے پاکستان کے کلچر کے ایک نادر منظر کی عکس بندی کرنا چاہے گا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ میں سے بیشتر پرانے زمانے کے ان خوش نصیبوں میں سے ہونگے جنہیں پرانے زمانے میں کبھی کشتیوں کے اکھاڑے کی نظر بینی کا موقع ملا ہو گا اور آپ مجھ سے یقیناً اتفاق کرینگے کہ اس کھیل میں ڈھول کی تھاپ کے ساتھ جذبات جس قسم کی شدت پکڑتے ہیں ان سے بھڑکی آگ اس کھیل کو اور ہی چار چاند لگا دیتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ بعض اوقات کیا اکثر اوقات شدت جذبات کی نوبت لڑائی جھگڑے اور مرنے مارنے تک لے جاتی ہے۔ قارئین آپ جانتے ہیں اس کھیل کو اس جنگی صورتحال تک لے جانیوالے وہ کونسے کردار ہوتے ہیں۔ بظاہر جب کشتی ہو رہی ہوتی ہے تو اکھاڑے میں دو پہلوان ہی اپنا زور لگاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ان سے زیادہ زور اکھاڑے سے باہر کھڑے انکے استاد لگا رہے ہوتے ہیں انکے کلمات انکی حرکات اور انکے آوازے کسنے پر جو رنگ ابھرتے ہیں وہ دیدنی ہوتے ہیں اور وہ دلوں کے کینوس پر اسطرح کے نقش و نگار چھوڑتے ہیں کہ جسکے نقش مدتوں اپنے گھروندے بنائے رکھتے ہیں۔ ان استادوں سے اگے ایک ہستی اور بھی ہوتی ہے جسے خلیفہ کہا جاتا ہے اور جو سب کیلئے قابل احترام ہوتا ہے اور ہار جیت میں اْنہی کا فیصلہ اٹل اور آخری ہوتا ہے۔ چھوٹا منہ بڑی بات ہمارے ہاں اسی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے یار لوگ سیاست کی گیم میں ان کوایمپائر کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اْنہی کا دم بھرتے ہیں۔ لطف کی بات متبرک سمجھے جانے والے اس کردار سے بھی بڑھکر ان دنگلوں میں جسمانی ساخت اور خد و خال کے لحاظ سے جنکی ذات بارے کسی صورت یہ شائبہ بھی نہیں گزرتا کہ اْنہوں نے کبھی دنگل کیلیئے اکھاڑے میں پاؤں بھی رکھا ہو ایسے کردار بھی نظر آتے ہیں جنکو خود پر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سارے کا سارا دنگل ہی انکی ذات کا مرہون منت ہے۔ کانگڑی جسموں کو تیل کی مالش سے چمکاتے لنگوٹ باندھے گلہریوں کی سی پھرتی دکھاتے یہ کردار کبھی اکھاڑے کے ایک طرف اور کبھی دوسری طرف جس برق رفتاری سے قلابازیاں کھا رہے ہوتے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ گاما پہلوان سے بھی بڑا نام کمائیں گے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ ایک چپیڑ کی بھی مار نہیں ہوتے۔ قارئین اپ جانتے ہیں پنجاب کی مشہور زبان میں اسے کیا کہتے ہیں جی انہیں ‘‘درشنی پہلوان’’ کہا جاتا ہے۔ اس سارے منظر کی عکس بندی سے پہلے راقم نے اس کالم میں ایک فقرہ استعمال کیا تھا کہ قارئین آپ میں سے بیشتر اپنے زمانوں میں اس طرح کی صورتحال کا نظارہ کر چکے ہونگے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے بیشتر قارئین جو اب اس نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کیلئے ایسے دنگل ایسے نظارے قصہ پارنیہ بن چکے ہونگے کیونکہ اجکل ایسی کشتیوں ایسے دنگلوں کا رواج تقریبا دم توڑ چکا ہے لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس دور میں کچھ فارغ العقل اور فارغ الذہن انہیں سیاسی دکانداری چمکانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آپکو قطعاً مایوس یا نا امید نہیں ہونے دے رہے ہونگے۔ شام چھ سے رات گیارہ بجے تک الیکٹرانک میڈیا اور چوبیس گھنٹے سوشل میڈیا پر آپکو ایسے اکھاڑوں اور دنگلوں کی بھرمار نظرآئیگی جہاں پر دنگل کے اصلی پہلوان یا تو لندن یا بنی گلہ یا کراچی کے کسی ہسپتال میں مقیم ملیں گے جنکی زیارت شائد عام آدمی کیلئے تبرک سے کم نہ ہو لیکن جن درشنی پہلوانوں کا اس خاکسار نے ذکر کیا ہے وہ آپکو بکثرت ملیں گے اور آپکو ایسا تاثر ملے گا کہ ہنڈیا اْبل کر اب باہر آئی کہ ابھی آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پنجابی کے ایک محاورے صورتحال یہ ہے کہ ‘‘ گھر میں نہیں دانے اور اماں چلی بھنانے ’’ انشاء اللہ اس پر پھر بات ہو گی کہ یہ پی ڈی ایم کی تحریک کے حوالے سے کیا کھچڑی پک رہی ہے اسکی پلاننگ کب اور کیسے ہوئی اور اسکے کیا ممکنہ نتائج نکل سکتے ہیں اور خاصکر ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جب سے آپکے ہمسایہ ملک میں بھی دھرنا سیاست کا ایک کھیل اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔