اہلِ کشمیر پرنامہربان رُتوںکااحوال

کشمیروہ خطّہ ٔ زمین ہے جس پر سارے جہان کی دلفریبیاں قربان کی جاسکتی ہیں لیکن ایک طویل عرصے سے اس پر نامہربان رُتوں کا راج ہے۔ یوں تو سال کا کوئی دن اورکوئی ساعت ایسی نہیںکہ جس کے دامن میں اہلِ کشمیر کیلئے کوئی نوید جاں فزا ہو لیکن جنوری کا مہینہ اپنی نامہربان رُتوں کے سبب ہمیشہ سے اہلِ کشمیر پر بھاری رہاہے۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے مسلمانانِ کشمیرپر جو قیامتیں ٹوٹتی رہی ہیں انکی ایک طویل اور تلخ داستان ہے ۔یہ تلخیاں ہمہ جہت ہیں اور آزادی کے متوالوں کیلئے ہرپہلو سے اذیت اور تکلیف کا باعث ہیں۔ جسمانی، ذہنی، نفسیاتی ، انفرادی اور اجتماعی ہر قسم کا ظلم اہلِ کشمیرپر روارکھاگیا ہے۔تقسیمِ ہند سے قبل ڈوگرہ راج کے سفاکانہ عہد میںاسکے سپاہی مسلمانوں کی بوٹیاں نوچنے میں مصروف تھے۔ مجاہدینِ آزادی کو درختوں سے باندھ کر ان کی چمڑیاں ادھیڑنے کاعملی مظاہرہ ہورہاتھا۔ظلم و بربریت اور وحشت و سفاکیت کاہر حربہ آزمایا جا رہا تھا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے!
اپریل 1919ء میں جب ہندوستان بھر میں رولٹ ایکٹ (Rowlatt Act) کیخلاف مظاہرے ہورہے تھے تو جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے سرعام گولی چلا کر سینکڑوں ہندوستانیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس ایک واقعے نے ہندوستان میں انگریز سرکار کی بنیادیں ہلا ڈالیں ۔ برطانوی استعمار کو اپنارویہ بدلنا پڑا اور تقسیم ہند تک دوبارہ کوئی ایسا بڑا سانحہ رونما نہیں ہوا جس میں بہیمانہ طریقے سے براہِ راست عوام پر گولی چلادی گئی ہو۔ لیکن کشمیر وہ بد نصیب دھرتی ہے جہاں ایسے ان گنت واقعات اورسانحات ہوچکے ہیں جن میں سرعام گولیاں چلاکر ہزاروں بے گناہوں کو خون میں نہلادیاگیا۔ صرف جنوری کے مہینے کی تاریخ کھنگالیں تو گاؤکدل ،سوپور، مگھر مل باغ، ہندوارہ اور برسہلاجیسے مظالم کی فہرست سامنے آتی ہے ۔ اگرچہ اس فہرست کا ہر باب اور ہرباب کی ہر لکیر خون کے دھبوں کا خوفناک منظر نامہ پیش کرتی ہے تاہم گاؤکدل کا قتلِ عام اس خونچکاں داستان کا باب اول ہے۔
گاؤکدل سری نگر کا ایک نواحی گاؤں ہے جہاں کے لوگ آزادی کاخواب دیکھتے ہیں ۔ ان کے تخیل میں صبح آزادی کا ایک حسین تصور بستا ہے جسے کچلنے کے لیے21 جنوری 1990ء کو بھارتی فوج نے سر عام پرامن مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑکردی۔ اس قتل عام میں زندہ بچ جانے والے اکا دکا کرداروں کی داستانیںنہایت دردناک ہیں ۔ بھارتی فوجی زمین پر گرے ہوئے زخمیوں کو بھونتے رہے ۔ گولیوں کی بوچھاڑ سے زخمی ہونیوالے بہت سے لوگ دردکی اذیت سے نجات حاصل کرنے کیلئے موت کی فریاد کرتے رہے۔جان بچانے کیلئے پل سے چھلانگ لگانے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی کی لہروں نے اپنے دامن میں لے لیا۔ بقول اقبال:
بہ دریاغلط و باموجش در آویز
حیات جاوداں اندر ستیز است
(ترجمہ: دریا کی تلاطم خیز موجوں سے نبردآزما ہوجا اس لیے کہ حیات جاوداں کا راز الجھنے میں پنہاں ہے)
جھوٹ، فریب،مکروعیاری اورمنافقت کا پیکر ہندوستانی حکومت نے اس واقعے پرحددرجہ ڈھٹائی اور بے شرمی کا ثبوت دیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق محض 28 افراد اس قتل عام میں جاں بحق ہوئے حالانکہ حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ مختلف آزاد ذرائع کے مطابق اس سانحے کے شہداء کی تعداد 50 سے 287ہے لیکن ہندوستان کی روایتی مکاری ہے کہ وہ ہمیشہ جھوٹ بول کر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتا ہے۔ گاؤکدل کاقتل عام اہل کشمیر کیلئے ایک عہدخوں آشام کی تمہید تھا جس کی تہہ میں چھاپے ، گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں ، وحشیانہ تشدد اور خواتین کی عصمت دری کے ان گنت شیطانی منصوبے مضمر تھے۔ ان منصوبوں پر آزادانہ عملدرآمد کیلئے ہندوستانی فوج نے کشمیر کی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے ہر طرح کے غیر ملکی میڈیا اور صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ بعدازاںپے درپے قتل عام کی داستانیں دہرائی گئیں۔ سو پور میں برپاہونے والی قیامت صغریٰ کوکون بھول ہوسکتا ہے جس کے بارے میں ایک عینی شاہدین بزرگ نے کہا کہ اہلِ کشمیر پر آئے روز قیامت صغریٰ تو برپاہوتی رہتی ہے لیکن سوپور کا قتلِ عام قیامت کبریٰ تھا ۔ ہندوستانی فوجیوں نے نہتے شریوں کے قتل عام کا یہ کارنامہ بھی جنوری کے مہینے میں ہی سرانجام دیا۔
6جنوری 1991ء کی صبح یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں اور آسمان قہر آلود نگاہوں سے سوپور کے باسیوں کو تک رہاتھا۔کالی گھٹائیں بجلیاں برسانے کاجتن کر رہی تھیں۔ بظاہر اہل علاقہ کیلئے سب کچھ حسب ِمعمول تھا۔ تجارت پیشہ، پرائی بیگار کرنے والے اور مسافر حضرات اپنی اپنی منزلوں کو رواں دواں تھے۔ عینی شایدین کے مطابق پہلے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی اور پھر فائرنگ ہونے لگی۔دفعتاََفائرنگ کی متواتر آوازوں کے بیچوں بیچ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی چیخ و پکار سنائی دینے لگی ۔ آگ کے شعلے بلند ہوکر آسمان سے باتیں کرنے لگے اوردھویں کے غول فضائے بسط پر محیط ہوگئے۔ ہندوستان کی نیم فوجی تنظیم بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) کی ایک بٹالین شہر کے مرکز میں خون کی ہولی کھیل رہی تھی ۔ آرام پورہ، شالہ پورہ، کرالہ ٹینگ ، مسلم پیر اور شاہ آباد کے علاقے جہنم کی ہولناکیوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ مسلسل کئی گھنٹوں تک زندہ انسانوں پر نشانے بازی کی مشق کی جاتی رہی۔ سوپور میں لگی اس آگ کو سو کے قریب افراد کا بہتا ہوا خون بھی بجھانے میں ناکام رہا۔ بے شمار گھروں، قیمتی دکانوں ،نجی دفاتراورگرلز کالج سمیت بہت سی عمارتوں کوجلاکر اربوں روپے کا نقصان کردیاگیا۔ شام کے قریب اس پورے علاقے میں ہندوستانی فوج نے عملاََ کرفیو نافذکردیا۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی رقم ہوئے ایک چوتھائی صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے تاہم ابھی تک قاتل نامعلوم ہیں ۔ شہداء کے وارثین اور لواحقین آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی تنظیمیں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کی طرف سے کی جانے والی اس دہشت گردی پر چپ سادھے بیٹھی ہیں۔