براڈ شیٹ کمشن : عدم اعتماد کی تحریک

انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 ء کی روشنی میں وفاقی حکومت کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ مفاد عامہ کے کسی مسئلہ پر انکوائری کمیشن تشکیل دے۔ وفاقی حکومت سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ انکوائری کمیشن تشکیل دیتے ہوئے انصاف کے تقاضے بھی پورے کرے۔ انکوائری کمیشن کا جو سربراہ مقرر کیا جائے وہ نیک نام اہل اور غیر متنازعہ ہو تا کہ عوام اس کی رپورٹ پر اعتبار کریں۔ پانامہ لیکس کے بعد براڈ شیٹ ایک ایسا میگا سکینڈل ہے جس میں بااثر افراد کے نام شامل ہیں جنہوں نے قومی خزانے کو لوٹا ہے افسوس کا مقام یہ ہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کو چوری کے غیر قانونی اثاثوں کا کھوج لگانے کے لئے 65 ملین ڈالر بطور معاوضہ ادا کئے گئے آخری قسط موجودہ حکومت کے دور میں ادا کی گئی جب کہ عوام کی لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس نہ لائی جا سکی۔ ان لٹیروں کے بارے میں تحقیقات کرنا عوامی مفاد کا تقاضا ہے۔ اہم قومی اور حساس مسئلہ کے بارے میں انکوائری کمیشن قائم کر کے موجودہ حکومت نے ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید پاکستان کی عدلیہ کے باوقار اور نیک نام اور اہل جج ہیں۔ براڈ شیٹ سکینڈل کی تفتیش اور تحقیق کے لیے ان کو کمیشن کا سربراہ نامزد کرنا ملک اور قوم کے مفاد میں ہے کیونکہ انکوائری کمیشن کا سربراہ ایسی شخصیت کو ہونا چاہیے جو نہ بکنے والا ہو نہ جھکنے والا ہو اور قومی مفاد پر پہرہ دینے کی طاقت اور سکت رکھتا ہو۔ براڈ شیٹ سکینڈل میں ملوث لوگ بڑے بااثر ہیں لہٰذا اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ اگر کسی کمزور شخصیت کو کمشن کا سربراہ بنا دیا جائے تو وہ دباؤ میں اور لالچ میں بھی آ سکتا ہے جیسا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی نامزدگی پر اعتراض اٹھایا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ چونکہ اس پانچ رکنی بنچ کا حصہ تھے جنہوں نے میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا لہٰذا ان کو کمشن کا سربراہ نہیں ہونا چاہیے۔ اپوزیشن کے لیڈروں کا یہ خیال ہے کہ یہ انکوائری کمیشن اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کو دباؤ میں لانے اور عوام کی نظروں میں بد نام کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے مطالبہ کیا ہے کہ براڈ شیٹ انکوائری کمیشن کا سربراہ ایسے شخص کو نامزد کیا جائے جو غیر جانبدار ہو۔ یہ امکانات موجود کہ اپوزیشن کے لیڈر انکوائری کمیشن کو عدالت میں چیلنج کر دیں تاکہ تفتیشی عمل کو طول دیا جا سکے۔ پاکستان میں انکوائری کمشنوں کی تاریخ بڑی افسوسناک رہی ہے مختلف کمشنوں پر اربوں روپے خرچ کر دیئے گئے مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ انکوائری کمیشن ایکٹ کے مطابق کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جانا چاہئے تاکہ عوام کو یہ پتہ چل سکے کہ اصل حقائق کیا ہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کو شائع نہیں کیا جاتا جس سے آئین کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ کمشن کی تشکیل بھی قومی مفاد میں ہوتی ہے اور قومی مفاد میں ہی کمشن کی رپورٹ کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں احتساب کی تاریخ بھی افسوسناک داستان ہے۔ ہم صاف شفاف اور یکساں احتساب کی روایت قائم نہیں کر سکے۔ اگر تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ احتساب کے مختلف اداروں نے اربوں روپے خرچ کر دیئے مگر کرپشن کے سینکڑوں مقدمات منطقی انجام تک نہ پہنچائے جا سکے۔ جب کسی سماج میں کرپٹ کلچر مضبوط اور مستحکم ہوجائے تو اسے تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ سنگین اور عبرتناک سزائیں دے کر ہی کرپشن جیسے موذی مرض سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید چونکہ محترم اور نیک نام اور اہل جج ہیں اس لئے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پاکستان کے قومی لٹیروں کو بے نقاب کریں گے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اندرونی انتشار اور خلفشار اب کھل کر سامنے آنے لگا ہے۔ حکومت مخالف اس سیاسی اتحاد میں شامل سیاسی لیڈروں نے آغاز میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ موجودہ حکومت کے خلاف پُرجوش تحریک چلائی جائے گی اور عوامی طاقت کے ذریعے موجودہ وزیر اعظم کو گھر جانے پر مجبور کر دیا جائیگا۔ پی ڈی ایم نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے اراکین اسمبلی اجتماعی استعفے دے کر حکومت کو مجبور کریں گے کہ وہ نئے انتخابات کرائے تاکہ عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کیا جا سکے مگر اب اپوزیشن کی یہی جماعتیں ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور انہوں نے سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا ایجنڈا بھی دیا تھا۔ پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت کے لیڈر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے یہ کہہ کر سیاسی حلقوں کو حیران کر دیا کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا آئینی اور جمہوری آپشن استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی ریلیوں سے جو مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکے وہ عدم اعتماد کی تحریک سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بلاول بھٹو کے اس بیان سے باریک نقطہ نکالا ہے اور کہا ہے کہ بلاول بھٹو کو چاہیے کہ وہ اب وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہنا چھوڑ دیں کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک آئینی اور منتخب وزیراعظم کے خلاف ہی پیش کی جاسکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کر کے فاش غلطی کی اور لانگ مارچ کے غبارے سے خود ہی ہوا نکال دی۔ دانشمندانہ حکمت عملی کا تقاضا یہ تھا کہ اسلام آباد میں لانگ مارچ سے پہلے کوئی سیاسی احتجاج نہ کیا جاتا تاکہ لانگ مارچ کا دباؤ حکومت پر قائم رہتا۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ایک انتہائی کٹھن مسئلہ ہے۔ جو سیاسی جماعتیں اپنی عددی اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب نہ بنا سکیں وہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب کیسے بنا سکیں گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی اس وقت اپوزیشن جماعتوں کو ریاست کی طاقتور قوتوں کی حمایت بھی حاصل تھی مگر اس کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ موجودہ حکومت کو ریاست کے مقتدر اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے اس صورتحال میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے امکانات انتہائی مخدوش ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے لیڈروں نے آپس میں رابطے شروع کر دئیے ہیں تاکہ پارلیمنٹ کو فعال اور متحرک بنایا جا سکے کیونکہ پارلیمنٹ اگر اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو حاصل عوامی اعتماد مجروح ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن پر فوکس کرنے کی بجائے گورننس پر فوکس کرے تاکہ عوام کے مسائل حل کیے جا سکیں اور حکومتی جماعت کو اگلے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی مل سکے۔