10بدھ ‘ 13؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 27؍ جنوری 2021ء

امیر ترین افراد دنیا بھر کیلئے کرونا ویکسین خرید سکتے ہیں
اجی چھوڑیں گولی ماریں ان دس امیر ترین افراد کو اور پوری دنیا کو۔ اگر ہم صرف اپنے ملک کی بات کریں یہاں کے امیر ترین دس نہ سہی‘ بیس ہی سہی‘ کیا اتنے مالدار نہیں کہ وہ ملک کے عوام کو بلا تفریق مذہب و ملت امیر و غریب کرونا کی ویکسین لگوا کر ان کی زندگیاں بچا کر نجات اخروی کے حقدار نہیں ہو سکتے۔ جنت مفت میں ہاتھ نہیں آتی۔ اس کیلئے اپنی پیاری اور قیمتی چیز قربان کرنا پڑتی ہے۔ دولت سب کو پیاری ہوتی ہے۔ یہ کم بخت تو جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ لوگ اس کو بچاتے ہوئے جان بھی گنوا دیتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں۔ ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کے حکم پر ہم اور ہمارے مسلمان ممالک کے امیر ترین حکمران اور دولت مند عمل کرتے ہیں یا یہ کافر غیر مسلم امیر لوگ ہی بازی لے جاتے ہیں۔ اپنی دولت انسانوں کی زندگیوں پر خرچ کرکے۔ افسوس کی بات ہوگی اگر انہوں نے پہل کی اور عمل کیا کیونکہ فرمان تو ہمارے لئے ہے ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی‘ اس نے ساری دنیا کی جان بچائی۔‘‘ خدا کرے مسلم امہ کے اندر بھی اپنی دولت راہ خدا میں انسان کی فلاح کیلئے خرچ کرنے کی ہمت پیدا ہو۔ کرونا انسانی زندگیوں کو نگلتا جا رہا ہے۔ اس سے عالم انسانیت کو بچانا سب پر فرض ہے۔ پیسے والے تو ویکسین خرید سکتے ہیں۔ غریبوں کیلئے اس کی مفت فراہمی بہت ضروری ہے۔
٭٭……٭٭
لیگی رکن کی کورم کی نشاندہی پر قومی اسمبلی اجلاس ملتوی
اس پر مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن والے حق بجانب ہوں گے اگر یہ کہیں
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں اپوزیشن والے پوری تیاری کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ احتجاجی بینرز بھی ان کے پاس تھے۔ ’’ہو کے رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیوں‘‘ والی حالت سامنے آنے والی تھی لگتا تھا کہ اسمبلی میں آج پھر گھمسان کا رن پڑے گا مگر افسوس ’’وہ تماشہ نہ ہوا‘‘ جو لوگ تیار بیٹھے تھے اور ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ گھڑوں پانی پڑ گیا۔ یہ سب ان کے اپنے ایک ساتھی کی مہربانی سے ہوا۔ جس نے خدا جانے انجانے میں یا جان بوجھ کر کورم کی نشاندہی کردی۔ جس پر حکومتی ارکان اسمبلی کے جان میں جان آئی اور سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ اب اپوزیشن جماعتیں ذرا اس رکن اسمبلی کی خبر لے کہ کہیں یہ غیروں سے جا کرتو نہیں مل گیا۔ اس نے ایسی حماقت کیوںکی۔ کہیں کسی (غیر) نے اسے اس کام پر مامور تو نہیں کیا تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حکومت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا جا سکتا تھا۔ مگر افسوس اسمبلی میں خود اپوزیشن والے ہاتھ ملتے رہ گئے اور ان کے دل کے ارمان دل میں ہی رہ گئے۔حکومتی ارکان نے چپکے سے اسمبلی سے کھسک کر اجلاس ملتوی کروا دیا کہ کورم پورا نہیں تھا۔
٭٭……٭٭
ایک ارب ڈالر کا الزام۔ حکومت 90 فیصد رکھ کر 10 فیصد مجھے دیدے : حسین نواز
لیجئے جناب اب حکومت کو چاہئے کہ وہ اس پرکشش پیشکش کا بھرپور فائدہ اٹھائے اور جو ایک ارب ڈالر بقول حکومت میاں نواز شریف نے اِدھرسے اُدھر کئے ہیں ان کو قبضے میں لے کر وصول کرے۔ اس کارخیر میں حسین نواز کی مدد حاصل کرے جو صرف 10 فیصد رقم مانگ رہے ہیں۔ اس طرح سونے کی لنکا مفت میں ہاتھ آ جائے گی۔ 90 کروڑ ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں کہ اس سے آنکھیں موند لی جائیں۔ اتنی رقم کو ہمیں کوئی مالیاتی عالمی ادارہ بھی فراہم کرنے سے قبل سو سو طرح کی منتیں ترلے کرواتا ہے۔ ہزاروں طرح کی ضمانتیں طلب کرتا ہے۔ اپنی کئی شرائط قبول کروانے کے بعد یہ قرض ہمیں ملتا ہے جو بعد میں ہمیں سود سمیت واپس بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اب کرپشن سے جمع کی گئی دولت یا قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت کا ایک بڑا حصہ واپس لانے کا یہ خوبصورت اور نادر موقع ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
نیب سے منسلک تمام ادارے جو بیرون ملک اثاثے واپس لانے کے لئے سرگرم ہیں۔ فوری تیار ہو کر اس ایک ارب ڈالر پر ٹوٹ پڑیں اور جہاز میں خواہ ہوائی ہوں یا سمندری بھر بھر انہیں ملک میں لا کر عوام کے سامنے پیش کر کے سرخرو ہوں۔
٭٭……٭٭
لداخ کے بعد سکم میں بھی چین کے ہاتھوں بھارت کی مرمت
لگتا ہے بھارت کے حکمرانوں اور فوجی جنرلوں کو ((غالب سے معذرت کے ساتھ)
کتنے شریں ہیں تیرے گھونسے کہ رقیب
لاتیں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا
چین کے ہاتھوں مار کھانے کی لت پڑ گئی ہے۔ لداخ میں کئی مرتبہ چینی فوج نے بھارتی فوجیوں کو لاتوں اور گھونسوں سے ایسا سبق سکھایا کہ دنیا نے دیکھا اور بھارتی فوج درجنوں لاشیں میدان میں چھوڑ کر بھاگ گئی۔ مگر ابھی تک لگتا ہے بھارت کے فوجیوں اور حکمرانوں کا دل نہیں بھرا۔ سکم ایک آزاد ریاست تھی جو چینی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں بھارت نے فوج داخل کر کے زبردستی قبضہ کر لیا۔ سکم ایک پرامن ملک اس کا مقابلہ نہ کر سکا۔ اب سکم بارڈر پر چینی فوج حسب معمول گشت پر تھی۔ جہاں بھارتی فوجیوں نے پنگا لینے کی غلطی کی۔ شاید یہاں بھارت چینی فوجیوں کو بھگا کر اپنی طاقت کا لوہا منوانا چاہتا تھا مگر افسوس الٹا لینے کے دینے پڑ گئے اور بھارتی فوج کو یہاں بھی گھونسوں اور لاتوں سے ایسا سبق سکھایا گیا اب کئی روز تک بھارتی فوجی ٹکور کرتے پھریں گے۔ مگر بھارتی میڈیا کو دیکھ لیں یہاں بھی اپنی بہادری کے بے سروپا کہانیاں سناتا نظر آ رہا ہے۔ اس پر سوائے ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
٭٭……٭٭