عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جھنم بھی
امیر المومنین امام علی ؓ فرماتے ہیں انسان کو عمل سے زیادہ پھل نیت کا ملتا ہے کیونکہ نیت میں دکھلاوہ شامل نہیں ہوتا اور انبیاء کے سردار ؐکا فرمان عالیشان ہے کہاعمال کا دارومدار نیت پر ہے … شاعر مشرق نے درست کہا اور خوب کہا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جھنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے سبق آموز باتیں ملتی ہیں ۔اچانک میری ملاقات اپنے محلے دار شیخ ندیم سے ہوئی ، پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ کہا بس تھوڑی سیر کیلئے گھرسے نکلا تھا ۔شیخ صاحب چائے پلانے لگانے گھر لے گئے ۔شیخ ندیم فلور مل آنر ہیں ۔بڑے ملن سار پیار کرنے والی شخصیت ہیں ۔ڈرائنگ روم میں پہلے سے انکے دوست موجود تھے۔تعارف ہوا کہ یہ بھی فلور مل آنر ہیں اس وقت آٹے کا بحران تھا۔ شیخ ندیم نے کہا انکے اس دوست سے خوبصورت واقعہ سن لیں پھر اس پر کچھ لکھنا۔ان کے دوست نے کہا اس شرط پر کہ انکا نام نہیں لکھیں گے ۔کہا شیخ تو لکھ سکتا ہوں مسکرا کرکہا اس کی اجازت ہے ۔ پھر شیخ صاحب نے واقعہ سنایا کہ فلور انکے والد صاحب نے بنائی اورچلائی ۔ والد کے بعد مل کو چلانے کا ذمہ میرے حصے میں آیا ۔ والد صاحب دنیا سے جانے سے پہلے نصیت کر گئے تھے کہ کسی مزدور کو نوکری سے فارغ نہیں کرنا ۔ہماری مل کا ایک ملازم نورا تھا یہ چوری کرتا ،جھوٹ بولتا اور نشہ کرتا تھا ۔ کئی بار دل نے چاہا کہ اس کو نوکری سے فارغ کر دیاجائے لیکن اپنے والد محترم کی نصیت یاد آتی اور درگزر کر دیتا ۔قدرت نے ہمیں مل سے بہت کچھ دیا ۔ کئی سالوں سے ہر سال تین چار ملازمین کو قرعہ اندازی کے ذریعے حج پر بھی بھیج رہے ہیں ۔ پہلی بار قرعہ اندازی ہوئی تو ملازم نورے کا نام حج کیلئے نکل آیا لیکن اس نے جانے سے انکار کر دیا ۔ دوسرے سال پھر تیسرے سال حج کیلئے قرعہ اندازی ہوتی تو اس میں بھی نورے کا نام بھی نکلتا رہا لیکن نورا ہمیشہ انکار کرتا رہا ۔ چوتھے سال جب قرعہ اندازی ہوئی تو حیرت انگیز طور پر نورے کا نام نکلا لیکن نورے نے پھر انکار کر دیا ۔ اس بار نورے کو آفس میں بلایا اور حج پر نہ جانے کی وجہ پوچھی تو نورے نے کہا؟ صاحب جی مجھے نماز آتی ہے نہ کبھی روزہ رکھا ہے ،مجھے حج کا بھی کچھ پتہ نہیں ۔ میں نے کہا اگر تم اس سال حج پرجانے پر رضا مند ہوجائو تو ہم تمہیں سال بھر کی ایڈوانس تنخواہ بھی دی جائے گی ۔ یہ سن کر نورے نے جانے کی حامی بھر لی اور ساتھ ہی شرط لگا دی کہ مجھے یہاں کوئی مولوی دیا جائے جو وضو ،نماز اور حج کے متعلق بتائے اور سکھائے،یہ شرط بھی مان لی گئی پھرمولوی صاحب نے اسے جانے سے پہلے آیات ، وضو ،نماز اور حج کا طریقہ سکھا دیا ۔ اس سال نورا تین ساتھیوں کے ساتھ حج پر روانہ ہو گیا اور پھر نورے نے حج بھی اداکر لیا ۔اسی رات کو عشا کی نورا آخری نماز پڑھ رہا تھا ۔ سجدے میں گیا وہی اسکی روح پرواز کر گئی ۔ آپ ا ﷲ کے فیصلے دیکھیں اسی رات امام کعبہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ لہذا نورے اور امام خانہ کعبہ کی میت حجرے اسود کے سامنے ایک ساتھ رکھی گئی۔ دونوں کا نماز جنازہ لاکھوں نے پڑھا ۔گھر والوں کی مرضی سے تدفین بھی نورے کی وہی کر دی گئی۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ نورے کے گھر گیا۔اس کی بیوہ سے مرحوم کی خوش بختی پوچھی؟ تو جواب ملا کہ میرے خاوند میں بظاہرکوئی خوبی نہ تھی میں خود حیران تھی کہ قدرت نے اسے کس نیکی کے صلہ میں نوازا ؟ کہا مجھے اپنے شوہر کی ایک اچھی عادت یاد ہے کہ ہمارے محلے میں نوجوان بیوہ رہائش پذیر تھی جس کی دو بچیاں تھیں۔گھر کو چلانے کے لئے جہاں کام پر جاتی لوگ اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ۔جب نورے کو پتہ چلا تو وہ اس کی ڈھال بن گیا ۔اسے اپنی منہ بولی بہن بنا لیا، بیوہ کا مکان اپنا تھا، دیور کچھ خرچہ اسے دے دیتا تھا لیکن گھر کا نظام چلانا اس کیلئے مشکل تھا۔ لوگوں سے نوراقرض لیتا ،فیکٹری سے کبھی کبھی چوری کرتا مگراس کے گھر راشن دیتا اور بچیوں کے تعلیم کا خرچہ پہنچاتا ۔نورے نے کبھی بھی اس کے گھر کی دپلیز پار نہ کی تھی۔یہ بہن ہمیشہ اسے دعا دیتی کہتی جا میرے بھائی ا ﷲ تعالی تمہارا خاتمہ ایمان پر کرے! اس وقت ہمیں یہ دعا عجیب لگتی تھی۔ نورے نے حج پر جانے سے پہلے بارہ ماہ کی اضافی تنخواہ بھی اس بیوہ بہن کو دے کر گیاتھا۔نورے کی بیوہ کے بعد ہم پھر اس کی منہ بولی بہن سے بھی ملے ۔ اس نے بتایا کہ نورا نیک صفت ،ہمدرد انسان اورمیرا بھائی تھاجو آپ نے سنا سب ایسا ہی ہے۔ اس کے بعد ہم نے بھی نورے کی اس منہ بولی بہن کو اپنی بہن سمجھا ۔نورے کی بیوہ کا خیال رکھا ۔ یہ سبق آموز واقعہ سے بات واضع ہو تی ہے کہ حقوق العباد کا ا ﷲ تعالی کے ہاں کتنی قدرو منزلت ہے کہ ایک شخص جو نام کا مسلمان تھا اسے زمین سے آسمان کی بلندیوں پر لے گیااور اسے اپنے پیاروں میں شامل کر لیا ۔ اس لئے کہ تما م اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ دعا ہے اﷲ تعالی ہمیں بھی حقوق العباد اور حقوق اﷲپر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین اس کے بعد آٹے بحران پر بات ہوئی ۔شیخ ندیم مہمان نوازی میں مصروف رہے مچھلی کھلاتے رہے۔ انکے دوست شیخ صاحب نے آٹا بحران پر بتایاکہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آٹے کا بحران پیداکیا گیا ۔ورنہ ہمارے ہاں گندم کی کمی نہیں ہے گندم ہمارے پاس ہمیشہ وافر مقدار میں رہی ہے ۔اس سال مارچ اپریل تک کسانوں کے پاس مزید گندم جمع ہو جائے گی ۔ اس صورتحال پر لگتا یہی ہے کہ نہ گندم ایکسپورٹ ہوئی اور نہ ہی امپورٹ ۔یہ سب کاغذی کاروائی تھی ۔اس میں پیسہ بنایا گیا۔اگر ایسا نہیں ہے تو اس پر حکومت کمیشن بنائے جو بتائے کہ گندم کا بحران کیونکر ہوا ؟ اس گیم میں چند کی کمر سیدھی ہوئی اور جب کہ غریب عوام کی کمر ٹوٹ گئی۔ آٹے اور چینی کی آوازیں صدر ایوب خان کے آخری دور میں سنی گئی تھی۔جس پر اس زمانے کے مشہور عوامی شاعر حبیب جالب نے ایک نظم مہنگا آٹا اس پہ بھی سناٹا لکھ ڈالی جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے ۔جس کے بعد حکومت کا خاتمہ ہو ا ۔ آج بھی ہر طرف چینی آٹے کا ہی شوربرپا ہے لیکن ابھی تک نہ حبیب جالب جیسے شاعر کی نظم سامنے آئی اور نہ ہی عوام سڑکوں پر آئے۔اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ ا س مہنگائی نے عوام سے کھڑے ہونے کی طاقت بھی چھین لی ہے ۔ غریب بچارا بے روز گاری مہنگائی سے خود کشیاں کر رہا ہے ۔ کہا جاتاہے جو حکومت آٹے چینی، دالوں ،سبزیوں کی قیمتیں کنٹرول نہیں کر سکتی سمجھو وہ پھر عوام کے دلوں سے بھی اتر جاتی ہے ۔ پھر ان کا گھر جانا ٹھہر جاتا ہے ۔ پاکستان ذرعی ملک ہے ۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ زرعی ملک کہلانے والا گندم درآمد کرے۔جہاں، ٹماٹرآلو پیاز کی قیمتیں اس لئے بڑ ھ جائیں کہ پڑوسی ملک سے تعلقات خراب ہیں باڈر بند ہیں ۔کیا ایسا ملک زرعی ہو سکتا ہے۔ ایسا سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ۔ اس ملک کا کسان چیختا ہے کہ حکومت ہم سے گندم خریدے لیکن کوئی ان کی نہیں سنتا ۔ فلور مل والے حکومت سے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ ہمیں جو کوٹہ گندم کا دیا جاتا ہے وہ ہماری ضرورت سے بہت کم ہوتا ہے ہمیں مجبورا پھرمہنگے داموں گندم اوپن مارکیٹ سے خریدنی پڑتی ہے ۔ ہم پھر حکومت کی دی گئی قیمت پر گندم فروخت نہیں کر سکتے لیکن ہماری ایک نہیں سنی جاتی ۔ شائد یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہیں نہیں معلوم کہ غریب آدمی ہوا ،پانی کے بعد اگر کسی چیز سے زندہ ہے تو وہ روٹی کے نوالوں کے کھانے سے زندہ ہے ۔اس لئے سابق سی ایم شہباز شریف نے سستی روٹی کے تندور لگائے تھے جہاں سے غریب کو دو روپے کی روٹی ملتی تھی ۔اب یہی روٹی اس غریب کو دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ مہنگائی اس قدر ہے کہ وزیراعظم جن کی تنخواہ دو تین لاکھ روپے ہے ؛ لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ میرا اس تنخواہ میں گزارہ نہیں ہو رہا۔ انہیں سوچنا چائیے وہ مزدور جس کی کل آمدن دس سے پندرہ ہزار ہے وہ کیسے گزارہ کرتا ہو گا ؟ لہذا ضروری ہے کہ عوام کو ان بھیڑیوں اور انکی سیاست سے بچانا ہوگا جھنوں نے غریب کا مہنگائی اور بے روزگاری سے جینا محال کر رکھا ہے ۔