سندھ میں ایم کیو ایم، تحریک انصاف میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ حکومت نے نائن زیرو سمیت کراچی میں سیل کئے گئے دفاتر کوکھولنے سے معذرت کر لی ہے۔ ایم کیوایم کا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ وہ دفاتر کھول کر ان کے حوالے کئے جائیں جن کی دیواریں انسانی خون سے رنگی ہوئی ہیں۔ جہاں کراچی کے عوام کو بیدردی سے مارا گیا۔ انہی دفاتر میں بند بوری بند لاشیں نکلتی تھیں۔ انہیں دیواروں کی اوٹ سے بھتہ جیسے گھنائونے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ خیبر پختونخواہ میں قبائلی عوام کی اُمیدیں بر نہ آئیں اکثر قبائلی اضلاع میں انتظامیہ کو پوری طرح ابھی فعال بھی نہیں کیا جا سکا۔ انضمام سے قبل قبائلی علاقے سرکاری افسروں کے لئے سونے کی کان کی حیثیت رکھتے تھے۔ تبادلوں تعیناتیوں کے لئے کروڑوں روپے خرچ ہوتے تھے۔ ایک کلرک کی سیٹ لاکھوں روپے کے عوض ملتی تھی۔ پنجاب میں لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے روٹس بند ہوئے دو ماہ گزر گئے ۔ 200 غیر رسمی سکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ ہوا۔ خصوصی بچوں کی خوراک اور ٹرانسپورٹ بند ہے۔ 4 بڑے ہسپتالوں کا خطرناک فضلہ ٹھکانے نہ لگ سکا، 3 ہفتوں کے دوران آوارہ اور بائولے کتوں کے کاٹے کے 805 واقعات درج ہوئے۔
نہر کے اطراف چنگ چی رکشوں پر پابندی ہے۔ لاہور میں صرف چند روٹوں پر ویگنیں چلتی ہیں۔ اورنج ٹرین 23 مارچ کو چل گئی تو غنیمت ہو گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔ ٹریفک پولیس چالان کمپنی بن چکی ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہر آئی جی زیرو ٹالرینس کا اعلان کرتا رہا لیکن پولیس بے قابو رہی۔ شیطانی خواہش پوری نہ کرنے پر تھانہ کبیر والا کے ایس ایچ او نے گھر پر چھاپہ مارا، تشدد کیا اور خاتون سے برہنہ رقص کرایا۔ ایسی دہشت وحشت اور بربریت کے لئے زیرو ٹالرینس کب دکھائی دے گی؟
احوال سیاست کے حوالے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کپتان کے لئے فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے؟ کیا پنجاب میں کوئی تبدیلی ممکن ہو سکے گی؟ سندھ میں بیڈ گورننس کی کئی مثالوں کے باوجود ترقیاتی منصوبے بھی مکمل ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بی آر ٹی منصوبہ عدالتوں کی طرح تاریخ پر تاریخ لے رہا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ صوبے کے سرکاری اور نجی سکولوںمیں ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم لازمی ہو گی۔ جنوبی پنجاب میں توقعات مایوسی میں بدل رہی ہیں۔ حکومتی ارکان اسمبلی عوام سے چھپتے پھرتے ہیں۔ پنجاب میں 115 سی این جی پمپ بند ہونے سے 3 لاکھ ملازمین فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ملاوٹ مافیا کے خلاف کریک ڈائون کے باوجود خوراک میں ملاوٹ بے خوف سے جاری ہے۔ معروف برانڈز کی ساڑھے 52 من کیچپ برگر والوں نے خرید لی تھی۔ ہر سال گزرنے کے ساتھ جرائم میں اضافہ اور مجرموں پر پولیس کی گرفت کمزور پڑنے لگی ہے۔ کیا حکومت بحرانوں سے نکل آئے گی؟ آئی جی ٹرانسفر معاملے پر وفاق اور سندھ حکومت میں ٹھن گئی ہے۔ بلوچستان میں بجلی و گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ تحریک انصاف کے 20 کے قریب جنوبی پنجاب سے ارکان اسمبلی کے ناراض گروپ نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ قبائلیوں کو دکھائے گئے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ عمران خان کا موضوع سخن اندورن اور بیرون ملک سابقہ حکومتوں کی کرپشن ہے۔ ان کی نظر میں ماضی میں حکمرانوں نے ذاتی مفاد کیلئے ریاستی اداروں کو تباہ کیا۔ بڑے بڑے منصوبوں میں کمشن لی۔ معیشت کو مصنوعی طورپر کنٹرول کیا‘ دنیا سے جھوٹے وعدے کئے‘ فوج سے کشیدگی رکھی۔ وہ ڈیویوس میں نہ بھی کہتے تب بھی یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے کہ عمران خان کو فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ان کے خیال میں گورننس کو بہتر کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ چاروں وزرائے اعلیٰ حکومتی ستون ہیں۔ کیا وہ سارے گورننس کی بہتری کا چیلنج قبول کرتے ہیں؟ سیاسی اتحاد حکومت کو گرانے میں تو کامیاب رہتے ہیں‘ لیکن حکومت کو مستحکم کرنے میں کبھی کارگر نہیں رہتے۔ کسی سیاسی پارٹی کی تنظیم ملک گیر نہیں ہے۔ پی پی پی‘ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی‘ کسی ایک کو بھی قومی سیاسی پارٹیاں نہیں کہا جا سکتا۔ صوبوں کی گورننس بہتر ہوگی تو ملک کے معاملات درست ہونگے۔ بے سمت سیاست اقتدار کے حصول کا نام ہے۔ عمران خان کے مدمقابل شہباز‘ بلاول اور مریم ہی ہو سکتے ہیں۔ حالیہ سیاست سر پیر کے بغیر ہے۔ حکمران تضادات کے ساتھ نباہ چاہتے ہیں۔ بیورو کریسی وزیراعظم کے وژن اور کوشش کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ چینی‘ آٹا‘ گندم‘ بیورو کریسی کے ہاتھوںسے باہر ہے! سکولوں ‘ کالجوں‘ تھانوں‘ کچہریوں‘ہسپتالوں کا نظام جوں کا توں ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہیں۔ چالانوں کی روانی ہے۔ سکیورٹی کیمروں کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آیا ہے۔ دل کے ہسپتال پر دن دہاڑے حملہ‘ پولیس کی حراست میں ہلاکتیں‘ گیس اور بجلی کی ڈھٹائی بیور وکریسی کیلئے سوالہ نشان نہیں؟ ہم اپنی بیورو کریسی کو نہیں مانتے جو بندوں سے الگ ہوکر عرش پہ جا بیٹھے۔ ملک میں کمشن کھائے گئے یا بنائے گئے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024