یہ تب کی بات ہے جب میں مڈل سکول میں پڑھتا تھا۔ماہ وسال کی بجائے اتنا یاد ہے کہ جنرل ایوب خاں کی حکومت تھی ،نواب آف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر اور سید حسنات احمد گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر تھے صدر اور گورنر تو رہے اپنی جگہ۔اس وقت کے ڈپٹی کمشنر بھی بڑی آن بان اور اختیارات کے حامل ہوتے کیونکہ وہ ریاست کے ملازم ہوتے کسی حکمران کے نہیں،بڑی غیرت مند بیوروکریسی تھی۔حکمرانوں اور ان کی اولادوں کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے قواعد وضوابط پر عمل کروانا اور کرنا ان کا وطیرہ ہوتا۔انہی ماہ وسال میں بچوں کے اغواء کی کہانیاں بھی منظر عام پر آتی رہتیں افواہ باز لوگ خبریں اڑاتے رہتے کہ پٹھان بچے اٹھا کرلے جاتے ہیں۔مگر ہمارے شہر میں ایسا واقع ابھی تک سنا ہے نہیں آیا تھا۔اور نہ ہی پٹھان بچے اٹھاتے تھے ۔دیگرر سالوں کے علاوہ بچوں کا ایک رسالہ جسے اکثر بچے بہت شوق سے پڑھتے ماہنامہ "تعلیم وتربیت"تھا۔جسے فیروز سنز لاہور شائع کرتا۔اس کا چسکہ بچوں کو ایسا تھا کہ اپنے بستوں میں چھپا کر سکول لے جاتے اور"ماسٹر"(تب سکول ٹیچر کو ماسٹر کہا جاتا تھا)سے نظر بچا کر کتابوں میں چھپاتے ہوئے پڑھتے رہتے۔اس میں ایک سلسلہ وار کہانی شائع ہوتی تھی"عالی پر کیا گذری" یہ کہانی پورے رسالے کی جان ہوتی،باقی کام چھوٹی چھوٹی نظموں اور "اقوال زریں"سے چلالیا جاتا۔ پھر یہ کہانی کتابی شکل میں چھپ کر مارکیٹ میں آئی اس وقت گلی محلوں میں "آنہ لایبئریری"ہوا کرتی تھی ۔جہاں سے ایک آنہ روز پر کوئی بڑی سے بڑی کتاب بھی کرایہ پرلی جاسکتی تھی ۔نسیم حجازی کے تاریخی اور ابن صفی کے جاسوس ناولوں کی بہت طلب ہوا کرتی ۔ماہنامہ"اردو ڈائجسٹ"سب سے مقبول تھا۔جونہی کوئی نیاناول یا مہینے بعداردو ڈائجسٹ آتاتو اسی روز علی الصبح پڑھنے والے لے جاتے۔اسی لئے لائیبریریوں والے ایک سے زائد رسالے منگواتے۔ذکر ہورہاتھا"عالی پر کیاگذری"کا توجونہی یہ کتاب آنہ لائیبریریوں پر پہنچی ،بچوں نے یہ کتاب کرایہ حاصل کرنے کیلئے لائیبریریوں رخ کرلیا۔بہت سوں نے اپنے والدین سے ضد کرکے اور باقی نے اپنا جیب خرچ بچا کراسے حاصل کیا۔چونکہ یہ کتاب پڑھ کر اسی دن واپس کرنا ہوتی تھی کیونکہ اگلے روز کا مطلب مزید ایک روز کا کرایہ ہوتا، اس لئے چوک نیائیں سے مولوی عظیم اشرف کی لائیبریری سے سکول سے چھٹی کے ایک روز کتاب لی اور شام تک پڑھ کرواپس کردی ۔مصنف نے سارازور اس ضروری بات صرف کیاکہ "کلوروفارم"والا گیند یا کسی اجنبی کا ہاتھ سے کوئی چیز نہیں لینی چاہیئے ۔وقت آگے بڑھتا رہا کئی ادوار آئے ،کئی حکومتیں بنیں اور ٹوٹیں،کئی نئے نئے قوانین اور ضابطے لاگو ہوئے تاہم یہ امراطمینان بخش تھا کہ بچوں کے اغواء کی وارداتیںخال خال ہی ہوا کرتیں،بلکہ بہت ہی کم لیکن گمشدہ بچوں کا معاملہ لوگوں کو درپیش رہتا۔کچھ بچے راستہ بھول کریا والدین کو بتائے بغیر کسی کھلی جگہ کھیلنے یا کٹی ہوئی پتنگ لوٹنے دور جگہوں پر چلے جاتے تو واپسی پر بھٹک جاتے ۔ان کی بازیابی کیلئے حکومت نے ایک ادارہ بھی بنایا ہوتا جس کیلئے مقامی لوگوں کو بھی شامل کرلیاجاتا۔ ہمارے شہر کے ایک مرحوم سیاستدان شیخ بشیر احمد نے تو اس نیک کام میں بڑا نام کمایا ۔آج تک شہرانکی اس خدمت کو نہیں بھول سکا۔"بچوں کی مزدوری" یعنیCHILD LABORاس وقت بہت زیادہ تھی،افسوس کہ آج نصف صدی گذرنے کے بعد بھی وہی المناک صورت حال ہے۔چائے خانوں، ہوٹلوں، خوانچہ فروشوں، ریٹرھیوں، آٹو ورکشاپوں،رنگ سازوں اور کارخانوں وغیرہ میں پہلے بھی بچوں سے "کام سکھانے" کے نام پر مشقت لی جاتی تھی اور آج اس میں کمی کی بجائے چنگ چی رکشائوں کی شکل میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے ۔شروع سے ہی ہم یہ سب مناظر دیکھ رہے ہیںپھر CHILD LABORکے علاوہ ایک نیا جرم سامنے آیا یعنی بچوں کا اغواء برائے تاوان۔بچے اغواء ہونا شروع ہوگئے کچھ ماں باپ تاوان دے کر اور زیادہ تر پولیس کی کوششوں سے بازیاب ہوتے رہے ۔پھر دوتین سال قبل قصور میں ایک بڑے سیکنڈل کا نکشاف ہوا جب چند بدمعاش ،حرام کاراور "کونسلر ٹائپ"شیطانوں نے معصوم لڑکوں کو ورغلا کر ان سے بد فعلی کی اور پھر اس کے وڈیو بناکر انہیں بلیک میل کرکے اسے اپنی حیوانی خواہشات اور کمائی کا ذریعے بنالیا۔بلیک میل ہونے والے ایک لڑکے کے والد نے جس کا جنرل سٹور تھا،میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک سال کے اندر اندر بیس لاکھ روپے بلیک میلر کو دے چکا ہے مگر ابھی تک ان کی جان نہیں چھوٹ سکی ،چاہیئے تو یہ تھا کہ قصور پولیس اس گھنائونے جرم کے کرداروں کو عبرت کا نشان بنا دیتی ،مگر پنجاب پولیس جس کا دبدبہ پورے پاک وہند میں تھا،جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سونگھ کے ہی قبر تک کھوج نکال لیتی ہے اب وہ ریاستی اہلکار نہیں جاتی امراء کی حفاظت پر مامورذاتی چوکیدار کی حثیت حاصل کرچکی ہے۔ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ بھی وزیر اعلی اور اس کابیٹا حمزہ شہباز کرتا ہے ۔ اداروں کو ریاست کے بجائے ذاتی چوکیدارہ کیلئے رکھا جائے گا تو قصور کی زینب توکیا ایک معمولی سی سائیکل چوری بھی نہیں پکڑی جائیگی۔یہاں مجھے چوہدری پرویز الہی کا طرز حکومت یاد آگیاجو بہت بہتر تھا۔انہوں نے آوارہ ولاوارث بچوں کیلئے ایک ادارہ "چائلڈ پروٹیکشن بیورو" قائم کیا ۔جسے 1121بھی کہا جاتا ہے ۔اسکے اہلکار اور افسران کسی کی شکائت یا اطلاع پریا پھر خود بھی روزانہ بازاروں ،ریلوے سٹیشنوں،لاری اڈوں اور سینمائوں وغیرہ کا چکر لگاتے اور ایسے بچوں کو بیورو کے دفتر میں لے آتے ۔ان دفاتر کی عمارات کیسی ہونگی ،دیگر شہروں کا تو مجھے پتہ نہیں مگر گوجرانوالہ کی سے سے خوبصورت اور بڑی عمارت سابقہ کینال ریسٹ ہائوس جسے ایک بار لاہور ہائی کورٹ کے گوجرانوالہ بینچ کیلئے موزوں قرار دیا گیا،اس بیورو کو دے دی گئی ۔چونکہ" چائیلڈپروٹیکشن" اب ایک قانون (ACT) کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اسے عوام کی اتنی تائید حاصل ہے کہ شہباز شریف وزیر آباد کارڈیالوجی ھسپتال کو تباہ کرنے کے باوجود1122 اور1121کو برباد نہیں کرسکے ۔یہ قانون کی اپنی طاقت ہوتی ہے ۔چائیلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے سے مجھے اس کی چیئر پرسن صبا صادق یا دآگئیں۔ایک بار لاہور الحمراء میںوزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کی صدارت میں کوئی اجلاس تھا۔دروازے پر جولوگ کھڑے ہوکر آنے والوں کا استقبال کررہے تھے،صباصادق ان میں پیش پیش تھیں پھرانہوں نے اپنی تقریر میں انہیں ایک ایسا مصلح راہنما بنا کر پیش کیا اور ایسے ایسے خوشامدانہ جملے ادا کئے کہ خود چوہدری پرویز الہی کو بھی اپنی ان خدائی صفات کا علم نہ تھا ۔ وقت بدلا پرویز الہی وزارت ختم ہوئی تو اب وہ (ن)لیگ کی صفوں میں تھیں ۔ایک بار ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس تبدیلی کا سبب پوچھا۔بتانے لگیں کہ اب ان کی مخصوص برادری کی حکومت آگئی ہے اور ذات تو سانپوں کو بھی پیاری ہوتی ہے۔آج کل وہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئر پرسن ہیںمگر زینب تو کیا اغواء یازیادتی کا شکار ہونے والی کسی بچی کیلئے کچھ نہیں کرسکیں۔گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ بڑی تنخواہ اور ملازمین کی فوج میں ان بچوں اور بچیوں کوکون یاد رکھے۔
آج 25جنوری کو جب میں سطور لکھ رہا ہوں تو زینب اور قصور کی دیگربارہ بچیوں کا تین ہفتوں بعد منظر عام پرآسکا۔اس سارے عرصے کے دوران روزانہ صبح دوپہر شام ڈاکٹر کی دوائی طرح شہباز شریف کے متضاد بیانات یا روزانہ کوئی نئی فوٹیج یا پھر آزاد کشمیر کے رنگیلے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدرکے ایک مخصوص بناتاتی بوٹی کے زیر اثر دیئے گئے بیانات ،جنہوں نے اس سے قبل بھی نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے موقع پر کہاتھا کہ ہم سوچیں گے کہ ہم نے آزاد کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرنا ہے یا پاکستان کے ساتھ ۔مختارمسعود نے کہا تھا کہ انسان ایک بار پستی میں ضرور گرتا ہے ،مگر یہ اس کا مقدرنہیںہوتا وہ پھر پستی سے باہر نکل آتا ہے کیونکہ اشرف المخلوقات ہے ۔راجہ فاروق حیدر تو ابھی تک اس پستی سے نہیں نکل سکے ،نواز شریف کے غلاموں کا شائد یہی مقدر ہے۔