ہم انتہائی بے حس قوم ہیں ہماری غیرت مر چکی ہے شرم نام کی کوئی چیز نہیں نہ ہم میں دور دور تک کوئی انسانیت کا Elementہے۔ جب سات سالہ زینب کو درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد مار کر پھینک دیا گیا۔ جب اس کا جنازہ اٹھا تو گویا انسانیت کا جنازہ اٹھ گیا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارے ملک میں روزانہ انسانیت کا جنازہ اٹھتا ہے۔ ہم روزانہ انسانیت کو دفن کرتے ہیں۔ ہم جانوروں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں ۔ وہ غیر مسلم اقوام جن کو ہم ہر وقت برا بھلا کہتے تھکتے نہیں، وہ مسلمان نہ صحیح مگر انسان ضرور ہیں ان میں مسلمانیت نہیں مگر انسانیت ہے ۔ میں نے یورپ بھی دیکھا اور امریکہ بھی۔ اُن کو غیر مسلم ہونے کا طعنہ بھی دیتا رہا۔مگر ان میں انسانیت بہت ہے انسان تو دور کی بات اگر کوئی جانور بھی سڑک پر آجائے تو پوری ٹریفک رک جاتی ہے، اور اس وقت تک گاڑیاں آگے نہیں بڑھتیں جب تک وہ جانور سڑک سے ہٹ نہیں جاتا مگر ہم لوگ سڑک پر ڈیوٹی دیتے ٹریفک اہلکار کو کچل کر رکھ دیتے ہیں اور پھر ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں ۔ہم وہ لوگ ہیںبلکہ وہ ہجوم ہیں جو ایک حادثے کے بعد دوسرے حادثے کا انتظار کرتے ہیں۔دو چار دن بیان بازی کرتے ہیں چھلانگیں مارتے ہیں، سیاست چمکاتے ہیں پھر اگلے سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔
جب 2005میں زلزلہ آیا تو گویا قیامت برپا ہوگئی۔ میں نے سوچا شاید اب ہم انسان بن جائیں، مگر ہمارے لوگ اس قیامت کی گھڑی میں زلزلہ زدگان کے گھروں کو لوٹتے رہے، زخمی اور بلاک ہونیوالوں سے روپے پیسے چھینتے رہے، خواتین کے بازو کاٹ کر زیورات اتارتے رہے جھوٹ بول کراپنے رشتہ داروں کی ہلاکت کا بہانہ بنا کر مال بٹورتے رہے، پھر APSپشاور کا سانحہ ہوا پھر میں نے سوچا کہ شاید اب کی بار ہم انسان بن جائیں۔ ایک قوم بن جائیں مگر کچھ فرق نہ پڑا۔میں اس سانحے کے بعد دو دفعہ APSپشاو ر بچوں کے ساتھ گیا، غیرت اور شرم کے مارے میرا سر جھکا ہوا تھا کہ ہم ان معصوم بچوں کی حفاظت نہ کر سکے۔ انکے ماں باپ کو کیسے منہ دکھائیں گے، مگر چند دن گزرنے کے بعدہمارے لوگ ویسے کے ویسے ہی بے حس تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ہم وہ لوگ ہیںجو دوسروں کو تڑپتا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ہم وہ لوگ ہیں جو مردوں کے کفن نکال کر بیچ دیتے ہیں ہم وہ لوگ ہیں جو قبروں سے Dead Bodiesنکال کر ان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ہم وہ لوگ ہیں جو بھتے کیلئے تین سو انسانوں کو جلاکر راکھ کر دیتے ہیں ہم وہ لوگ ہیں جو شازیب جیسوںکو قتل کر کے عدالت سے رہا ہو جاتے ہیں اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے دندناتے پھرتے ہیں، ایسے درد ناک اور شرمناک واقعات روٹین بن چکے ہیںصرف قصور میں گیارہ کمسن معصوم لڑکیوں کو زیادتی کے بعد اب تک قتل کر کے ان کی نعشوں کو کچرے اور ویران جگہوں پر پھینکا جا چکا ہے انہی دنوں فیصل آباد، کراچی، سرگودھا، راولپنڈی، مردان اور بہت سی جگہوں پہ اسی طرح کے واقعات ہوئے ۔ 2017میں 1764ذیادتی کے کیسز ہوئے۔ کچھ عرصہ پہلے قصور میں ہی تقریبا 300بچوں کے ساتھ ذیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنائی گئیں اور ان ویڈیوز کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں بیچا گیا۔ نہ زمیں پھٹی نہ آسمان گرا۔ وحشی درندوں نے معصوم بچے بچیوں کو مسل دیا۔ ہم انسان نہیں جانور ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔حیوانیت ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جب تک یہ وحشی درندے نشان عبرت نہیں بنے گے اس طرح کے جرائم نہیں رکیں گے۔یہ کسی ایک شہر اور صوبے کی بات نہیں حالات ہر جگہ اسی طرح ہیں کوئی میڈیا کی نظروں میں آجاتا ہے اور کوئی اوجھل ہو جاتا ہے ۔مگر اس طرح کے بے شمار واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، اور کیوں نہ ہوں؟
آج تک کسی مجرم کو سزا ملی ہے؟ کسی کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے، کیا کسی کو نشان عبرت بنایا گیاہے؟ نہیں بالکل نہیں تو پھر یہ جرائم بڑھیں گے نہیں تو اور کیا ہو گا۔ صرف اہلکاروں کو معطل کرنے سے، متاثرہ فیملی کے گھر جا کر فوٹو سیشن کرانے۔ نعرے مارنے سے، ٹی وی پر بیٹھ کر پروگرام کرنے سے مسائل /جرائم کبھی کم نہیں ہونگے۔ لاشوں پر سیاست کرنے سے کبھی حالات ٹھیک نہیں ہونگے۔ عجیب مذاق ہے کہ وزیر اعلی کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو سخت سزا ملنی چاہئیے، عدالت کہتی ہے سخت سزا ملنی چاہیے والدین/سول سوسائٹی/، سیاستدان کہتے ہیں عبرت ناک سزا ملنی چاہئیے، انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہئیے مگر سزا دے گا کون؟ اس میں کسی ایک فرد یا ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہم سب ان واقعات کے ذمے دار ہیں۔ اس میں والدین، اساتذہ، انتظامیہ، عدلیہ ، حکومت سول سوسائٹی یعنی پورا معاشرہ اس قسم کے واقعات کا ذمہ دار ہے۔ مگر کوئی بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ بن چکا ہے ہم ذہنی طور پر معذور ہو چکے ہیں، ہمارا ضمیر مر چکا ہے، ہماری اخلاقی قدریں دفن ہو چکی ہیں، ہم نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور یہ بیماری ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے ہم جب تک اس ناسور کو کاٹ پھینکے گے نہیں ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے۔جب تک اسلام کے Examplary Punishmentوالے Conceptپر عمل نہیں کریں گے تو یہ جرائم کم نہیں ہوسکتے ۔معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ انجام دینا ہوگی۔ ہر ایک کو اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا،ورنہ زینب اور عاصمہ کی طرح بچیاں اور بچے زیادتی کا نشانہ بنتے رہیں گے بے دردی کے ساتھ قتل ہوتے رہیں گے، عزتیں لٹتی رہیں گی مائوں کی گودیں اجڑتی رہیں گی۔ جب تک بغیر کسی امتیاز کے سب کو انصاف نہیں ملے گا ۔ہم انسان نہیں بن سکتے۔ اورہم اسی طرح بے حس قوم بنے رہیں گے اور انسانیت کے جنازے اٹھتے رہیں گے۔