منظر ہو بیا ں کیسے؟ الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمدکا دربار نظر آئے! سرکار دو جہاں حبیب خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک شہر مدینہ طیبہ میں داخل ہوتے ہی دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور لبوں پر بے اختیار حسن نثار کے اشعار”تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا”اشکوں کی
صورت بہنے لگتے لگتے ہیں۔
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاو¿ں چومتا ہوتا۔۔۔۔
رستہ ہوتا تیرے گزرنے کا
اور تیرا رستہ دیکھتا ہوتا۔۔۔۔
حرم طیبہ میں جب یہ نا چیز طیبہ داخل ہوتی ہے تو حقیقی گھر پہنچ جاتی ہے۔ برسوں کی تھکی ماندی ہاری پیاسی جب رحمتوں کے چشمے تک پہنچتی ہے تو اداسیوں کے تمام پھٹ کھل جاتے ہیں۔مدینہ طیبہ کی پاک زمین پر قدم رکھتے ہی بدن اور روح کی ساری تھکان دور ہو جاتی ہے۔ در طیبہ کی حاضری نصیب ہو جائے تو زندگی گزارنا سہل ہوجاتا ہے۔مدینہ طیبہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ چودہ سو سال کے دوران مسجد نبوی کی چودہ بار توسیع کی گئی۔ گویا مسجد نبوی کی ہرصدی میں ایک بار توسیع کی جاتی رہی ہے۔ ایک ہزار پچاس مربع میٹر سے شروع ہونے والی مسجد نبوی آج پانچ لاکھ مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کی زمین تھی۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر بضد تھے اور اس بات کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمین شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کیلئے استعمال ہوجائے مگر محمد نے بلا معاوضہ وہ زمین قبول نہیں فرمایا، دس دینار قیمت طے پائی اور آپنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کےلیے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔ مسجد سے متصل ایک چبوترا بنایا گیا جو ایسے افراد کے لئے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔
آپ نے اپنے ہاتھ سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے محمد، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک ہیں۔گنبد خضر ا میں پروردگار نے ایسی کشش رکھ دی ہے کہ نگاہ پڑتے ہی راحت و سکون کی ایک لہر آنکھوں سے روح کی گہرائی تک اتر جاتی ہے۔ گنبد خضر ا کو مملوک سلطان سیف الدین قلاوون نے 678ھ میں تعمیر کروایا۔ اصل ساخت میں لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ہر نئے حکمران کی طرف سے بحالی کے کاموں کے وقت اسے سفید اور نیلا رنگ کیا جاتا رہا۔ 1481ء میں مسجد میں شدید آگ لگی جس کے نتیجہ میں گنبد بھی جل گیا۔ گنبد کی دوباہ تعمیر کا کام مملوک سلطان قاتبای نے شروع کیا۔ اس مرتبہ ایسے حادثات سے بچاﺅ کے لیے لکڑی کی بجائے اینٹوں کا ڈھانچہ بنایا گیا اور لکڑی کے گنبد کی حفاظت کے لیے سیسہ کا استعمال کیا گیا۔ امیر المومنین ۔سلطان سلیمان اعظم خلافت عثمانیہ کے دسویں سلطان تھے۔ انہوں نے گنبد کو سیسہ کی چادروں کے ساتھ مڑھوایا پھر 1818ء میں عثمانی سلطان محمود بن عبدالحمید نے اسے سبز رنگ کروایا اس کے بعد سے یہ ایسا ہی ہے۔گنبد کی موجودہ تعمیر کو دو سو سال ہو گئے ہیں۔حجرہ مبارک کے اوپر دو گنبد تعمیر کئے گئے۔ ایک سبز رنگ کا اور دوسرا چھوٹا سفید رنگ کا گنبد ہے۔ ا±م المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی رہائش گاہ اور قبور مقدسہ کے درمیان ایک دیوار اٹھوا دی، جس میں ایک دروازہ رکھا، سیدہ عائشہؓ کی حیاتِ طیبہ میں حجرہ مبارک کھلا رہتا، صحابہ کرامؓ حجرہ کے مشرقی دروازہ پر حاضر ہوتے اور درود و سلام پیش کرتے۔ جب کسی صحابیؓ نے حجرہ مبارکہ کے اندر حاضری دینا ہوتی تو وہ ا±م المومنین کی اجازت سے ہی اندر حاضر ہوکر سلام پیش کرتے۔سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے انتقال کے بعد حجرہ مبارک کا دروازہ بند کردیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن محمد بن عقیل بیان فرماتے ہیں کہ مَیں ایک رات جبکہ بارش ہو رہی تھی، حسبِ معمول سحری کے وقت اپنے گھر سے نکلا، جب مَیں مغیرہ بن شعبہ کے مکان کے قریب پہنچا تو مجھے ایک عجیب و غریب خوشبو محسوس ہوئی،اس جیسی نفیس خوشبو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ خوشبو سے فضا معطر و مشک بار ہوگئی تھی میں خوشبو کے منبع کی جانب گیا تو حجرہ انور کے سامنے پہنچ گیا اور دیکھا کہ حجرہ مقدمہ کی مشرقی دیوار منہدم ہوگئی ہے۔کچھ ہی وقفہ بعد عمر بن عبدالعزیزؒ گورنر مدینہ بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے چادر سے پردہ کروایا۔بعد از نمازِ فجر عمر بن عبدالعزیزؒ نے مدینہ منورہ کے ایک مشہور معمار کو بلوایا اور اسے دیوار کی مرمت کے لئے حجرہ مبارک کے اندر جانے کا حکم دیا۔اندر جا کر ا±س نے امداد کے لئے ایک اور آدمی طلب کیا۔ جناب عمر بن عبدالعزیز اندر جا کر ہاتھ بٹانے کے لئے خود تیار ہوئے،لیکن پاس کھڑے قریش نے بھی شمولیت پر اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ مَیں کبھی ایک ہجوم کو اندر بھجوا کر حضور کو ایذا نہ پہنچنے دوں گا اور پھر ایک غلام کو اندر
بھجوایا جس نے اندر گری ہوئی مٹی اٹھائی اور قبر مبارک پر دیوار گرنے سے جو شگاف پڑ گیا تھا اسے اپنے ہاتھ سے پ±ر کیا۔ دیوار کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے بنیاد کی کھدوائی اولادِ صحابہؓ کی موجودگی میں ہوئی۔اس دوران سیدنا عمر فاروقؓ کے قدم برہنہ ہو گئے تھے اور دیکھا گیا کہ کفن بھی میلا نہ ہوا تھا۔بہرحال دیوار کو پہلے کی طرح دوبارہ تعمیر کر دیا گیا۔ 88ھ میں عمر بن عبدالعزیز گورنر مدینہ نے حجرہ مبارک کے گرد6.75میٹر اونچی عمارت انتہائی قیمتی پتھروں سے تعمیر کروائی، جس میں کوئی دروازہ نہ رکھا گیا۔یہ عمارت مربع کی بجائے پانچ پہلو رکھی گئی تاکہ لوگ اسے مثیلِ کعبہ جان کر کہیں اس کے بھی طواف میں نہ لگ جائیں۔اس عمارت کو ”حظار مزور“ یعنی حرمت والا احاطہ کہا جاتا ہے اور آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ 170ھ میں جب خلیفہ ہارون الرشیدکی والدہ خیزران خاتون حج کی ادائیگی کے بعد روضہ رسول
کی زیارت کو آئیں تو انہوں نے پوری مسجد میں عطر لگوایا اور حظار مزور کی عمارت پر ریشمی پردے چڑھائے۔بعد میں شاہانِ مصر و بغداد کو غلاف چڑھانے کی سعادت ہوتی رہی۔547ھ میں حجرہ مقدسہ کے اندر سے اچانک ایک آواز س±نی گئی، جس کی اطلاع امیر قاسم بن مہنی الحسینی کو دی گئی۔امیر قاسم نے علمائے کرام اور صلحائے عظام سے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ کسی نیک بزرگ شخصیت کو حجرہ مبارک کے اندر اتارا جائے اور وہ صورتِ حال کا پتہ لگائیں، چنانچہ ایک انتہائی زاہد و عابد بزرگ شیخ عمر السنائی الموصلیکا انتخاب ہوا۔شیخ صاحب نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ریاضت میں لگ گئے، آخر ایک دن حضور پاک سے حجرہ شریف میں داخلے کی اجازت چاہی۔ جناب شیخ کو رسیوں کے ساتھ حظار میں ا±تارا گیا اور ا±ن کے ساتھ ایک روشن شمع بھی اتاری گئی۔آپنے دیکھا کہ چھت سے کچھ قبور پر گرا ہے۔آپ نے اسے ہٹا دیا اور قبور مبارکہ پر پڑی مٹی کو اپنی ریش مبارک سے صاف کر دیا۔557ھ میں سلطان نور الدین زنگی نے رسول اللہ کی ایک رات میں تین بار زیارت کی۔ہر بار حضور نے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ جلد آو¿ اور ان دو اشخاص کے شر سے مجھے بچاو¿۔اِسی رات کے آخری پہر میں مصر سے تیز رفتار اونٹوں پر اپنے بیس خاص خدام اور زرِ کثیر کے ساتھ روانہ ہو گیا۔اس نے یہ سفر رات دن جاری رکھا اور سولہویں دن شام کے وقت مدینہ منورہ پہنچ گیا۔بعداز غسل عجز و احترام کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہو کر ریاض الجنتہ میں نوافل ادا کر کے متفکر بیٹھ گیا،تمام اہلِ مدینہ کو حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔سب آئے، مگر وہی دو شخص نہ تھے۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ دو اہلِ مغرب انتہائی متقی افراد رہ گئے ہیں، جو د±نیا سے یکسو اور گوشہ نشین ہیں۔ ان کو بلوایا گیا تو سلطان نے ا±ن کو پہچان لیا۔سلطان نے ان سے پوچھ گچھ کی اور پھر ان کے مکان پر گیا جو مسجد کے قریب میں ہی تھا۔ جستجو سے پتہ لگ گیا کہ ایک نقب اِس مکان سے حجرہ مبارک کی جانب کھودی جا رہی ہے۔مزید تفتیش پر انہوں نے قبول کر لیا کہ وہ عیسائی ہیں، ا±نہیں عیسائی بادشاہ نے حضور کے جسد اطہر کو یہاں سے نکال لے جانے کے لئے بھیجا ہے۔سلطان سخت غضبناک ہوا اور صبح ان کو قتل کر کے شام کو ان کی منحوس لاشوں کو جلا دیا گیا۔اب سلطان نور الدین زنگی نے ”حضار مزور“ سے8فٹ کے فاصلے پر گہری خندق کھدوائی کہ زمین سے پانی نکل آیا اور اس نے خندق کو سطح زمین تک سیسہ پگھلوا کر بھروا دیا اور اس کے اوپر جنگلہ بنوا دیا۔667ھ میں سلطان رکن الدین ظاہر بیبرس نے اِس جنگلے کی جگہ تین میٹر اونچا لکڑی کا جالی دار جنگلہ نصب کروا دیا۔اس جنگلے میں تین دروازے رکھے گئے۔694ھ میں الملک زین الدین نے اس جنگلہ کو چھت تک بلند کروا دیا۔ یہ ایک برآمدہ نما عمارت بن گئی۔جسے مقصورہ شریف کہا جاتا ہے۔ 732ھ میں الملک الناصر محمد بن قلادون حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ حاضر ہوا تو مقصورہ شریف میں رش دیکھا جو اِس جگہ کے تقدس اور عظمت کے خلاف تھا، چنانچہ مقصورہ شریف کو ایام حج میں بند کر دیا گیا۔ 828ھ میں قاضی النجم ابن الحجی نے زائرین کے ہجوم کے پیش نظر مقصورہ شریف کے دروازوں کو بند کروا دیا تاکہ آداب پامال نہ ہوں اور اب آج تک یہ دروازہ بند چلا آ رہا ہے اور زائرین جالیوں کے باہر کھڑے ہو کر درود و سلام پیش کرتے ہیں۔صلی اللہ علیہ وسلم
٭٭٭٭٭