قومی اسمبلی: حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان میں مار کٹائی
سلام آباد (اسٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ ) قومی اسمبلی کا انتالیسواں اجلاس لڑائی کا اکھاڑہ بن گیا۔ حکمران مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مشتعل ارکان باہم گتھم گتھا ہو گئے، ایک دوسرے کے گریبان پھاڑ ڈالے، تھپڑ اور گھونسے رسید کئے گئے، دونوں جانب کے سمجھ دار ارکان نے بیچ بچاﺅ کی کوشش کرائی۔ قومی اسمبلی کے سکیورٹی سٹاف نے فریقین کو الگ کیا۔ سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کے درمیان انسانی زنجیر بنا ڈالی۔ سپیکر نے اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر دیا اور واقعہ کی تحقیقات کرانے کا اعلان کر دیا۔ لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف اپوزیشن کی تحریک استحقاق کے محرکین کو بولنے کا موقع دیئے جانے کے معاملہ پر پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور سپیکر ایاز صادق کے درمیان مکالمہ چل رہا تھا۔ واضح رہے اس سے پہلے ہی ایوان میں ماحول انتہائی کشیدہ ہو چکا تھا کیونکہ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر کے اختتام پر جم کر وزیر اعظم کے خلاف یہ نعرے لگوائے کہ” گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے، سرکاری ارکان اس کے جواب میں ” گلی گلی میں شور ہے، عمران چور ہے“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس دوران وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی، نوید قمر سے بات کرنے کیلئے اپوزیشن کے بنچوں کی جانب بڑھے، وہاں تحریک انصاف کے ارکان پہلے سے موجود نعرے بازی میں مصروف تھے۔ پریس گیلری سے دیکھے منظر کے مطابق تحریک انصاف کے مراد سعید، شہر یار آفریدی اور آزاد رکن جمشید دستی نے شاہد خاقان سے الجھنے کی کوشش کی وہ اپوزیشن کو کیوں چپ کرانے آئے۔ اس دوران مراد سعید کا دھکا اور گھونسا شاہد خاقان کو لگا۔ قریب ہی موجود سرکاری رکن معین وٹو نے جواب میں تحریک انصاف کے رکن شہریار آفریدی کو زوردار تھپڑ رسید کر دیا جس کے ساتھ ہی دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔ تھپڑ لگنے سے شہر یار آفریدی کی چترالی ٹوپی نیچے گر گئی۔ تحریک انصاف کے امجد نیازی اور آزاد رکن جمشید دستی ڈیسکوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے للکارتے رہے۔ اس دوران کسی اور رکن کی چترالی ٹوپی بھی فضا میں اچھلی۔ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اس لڑائی سے الگ رہے۔ سرکاری بنچوں کے بھی اکثر ارکان اپنی نشستوں پر براجمان رہے۔ سپیکر نے اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کیا تو سرکاری ارکان بنچوں پر موجود رہے جبکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ارکان ایوان سے نکل گئے۔ تحریک انصاف کے ارکان واپس نہیں آئے لیکن پیپلز پارٹی کے بعض ارکان اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر ایوان میں موجود تھے۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے مطالبہ کیا ایوان میں ہونے والی لڑائی کو فوری زیر بحث لایا جائے۔ سپیکر نے کہا بعد میں بات کریں گے جس پر جماعت اسلامی کے ارکان ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے۔ جب ایوان کا وقفہ سوالات ختم ہوا تو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا وزیر اعظم نواز شریف نے ایوان سے غلط بیانی کر کے ایوان کا استحقاق مجروح کیا ہے جس پر اپوزیشن کی تحریک استحقاق منظور کی جائے۔ آمریت کے گماشتے، وزیر اعظم کی غلط بیانی کی وجہ سے پارلیمنٹ کا وقار مجروح کر رہے ہیں۔ وہ ایک ایٹمی ریاست کے وزیر اعظم ہیں۔ جو کچھ انہوں نے پارلیمنٹ میں کہا، سپریم کورٹ کی ان کے وکیل اس سے متضاد مﺅقف پیش کر رہے ہیں۔ سپیکرکی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری ہے اس تحریک پر کارروائی کریں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا حکومت نے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ موقف میں تضاد کی وجہ سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کے دفاع میں وہ وکلاءکے دلائل میں دو قطری خطوط نے جنم لیا، خطرہ ہے تیسرا وکیل آئے گا تو اس سے تیسرا قطری خط جنم لے گا۔ استثنیٰ کے حوالے سے آئینی شقوں کا سہارا لیتے ہوئے برقعہ اوڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اب بھی حکومت تاک میں ہے کس طرح مزید پیوند کاری کی جائے۔ پارلیمنٹ میںکہے گئے وزیر اعظم کے عام جملے نہیں تھے۔ یہ ان کا موقف تھا آج وزیر اعظم کے اس موقف سے کنارہ کشی کیوں کی جا رہی ہے۔ کیا پارلیمنٹ بے حیثیت ہے کیا الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔ آئین کے تحت سوموٹو نوٹس پر وسیع اختیارات ہیں اس سے کوئی آنکھ اوجھل نہیں کر سکتا۔ پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا وزیر اعظم ایوان میں آکر اعلان کریں ان کا وہی مو¿قف ہے جو ا نہوں نے اپنے خطاب میں بیان کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سپریم کورٹ میں متضاد مو¿قف اختیار کرنے پر اپنے تمام وکلاءکو فارغ کریں۔این این آئی کے مطابق سپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا پارلیمانی لیڈرز، حکومتی و اپوزیشن ارکان مل کر دیکھیں گے اور کوئی لائحہ عمل نکالنا پڑے گا۔ مزید براں نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی رہنماﺅں کا اجلاس آج طلب کرلیا۔ قومی اسمبلی میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلی بل 2016ءمنظور کرلیا گیا۔ بل زاہد حامد نے ایوان میں پیش کیا۔ بل میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کنونشنز ذمہ داریوں کے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ آئی این پی کے مطابق 1995کے بعد قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن رہنماﺅں کے درمیان ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑے کا پیش آنے والا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس میں تحریک انصاف اور حکومتی ارکان گتھم گتھا ہو گئے۔ جبکہ پی پی پی ارکان نوید قمر اور دیگر لڑائی چھڑوانے کی کوشش کرتے رہے جو ناکام رہے۔ سکیورٹی گارڈز نے ارکان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا۔ عمران خان کے خلاف چند حکومتی ارکان کے علاوہ اکثریت نے اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں دیا اور وہ خاموشی سے اپنی نشستوں پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ جبکہ وزیراعظم کے خلاف نعروں کے دوران پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیا۔ خواجہ آصف نے تقریر کرتے ہوئے کہا پی ٹی آئی نے تہذیب کی تمام حدیں پار کر لیں۔ شاہ محمود نے جو زبان استعمال کی، جس طرح اشارے کئے اور نعرے لگوائے اس سے ماحول خراب ہوا، وہ ہم سے منی ٹریل پوچھتے ہیں، اپنی سیاسی ٹریل بھی بتائیں۔ وہ 200 سال سے قبروں کی کمائی کھا رہے ہیں، اس کی منی ٹریل بتائیں۔ شاہ محمود نے اپنے اور مسلم لیگ ن کے ارکان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے اور کہا خدارا قوم کے سامنے سچ بول دیں۔ قبل ازیں شاہ محمود قریشی نے تقریر کرتے ہوئے کہا سپیکر سے کہا گزشتہ بار آپ نے کہا تھا معاملہ زیرسماعت ہے، ہم نے دوبارہ تحریک استحقاق پیش کی، ہم ایک جزو کی بات کر رہے ہیں، وزیراعظم نے ایوان کو اعتماد میں لینے کیلئے خطاب کیا، وزیراعظم کو اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کا حق تھا، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، ہم سڑکوں پے عدالت چلے گئے، سچ دبانے کی کوشش کی گئی، سپریم کورٹ نے اس لئے ازخود نوٹس لیا۔ حکومت کی جانب سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب پولیس نے خیبر پی کے کے لوگوں پر تشدد کیا خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ پنجاب پولیس کو آپ کی ہر حکومت کی لونڈی بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ سپیکر نے شاہ محمود قریشی کے بیان سے لونڈی کا لفظ حذف کر دیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا آج کل وزرائ، وزیراعظم کے خاندان کا دفاع کر رہے ہیں جو بری بات نہیں۔ وزراءدفاتر میں نہیں بیٹھتے، ایک ٹولہ جاتا نہیں دوسرا بولنے آ جاتا ہے۔ شام کو ان کی حاضری لگنی ہوتی ہے۔ ”ٹک ٹک پاس اور فیل“ عدالت میں وزیراعظم ک یلیگل ٹیم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہی۔ اس لیگل ٹیم کے ٹکڑے کر کے تین ٹیمیں بنا دی گئیں۔ آج قطری ون کے بعد قطری ٹو آ گیا۔ قطری ٹو اس لئے آیا قطری ورن نے پورا کام نہیں کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے مو©قف کی عدالت میں دھجیاں اڑا دی گئیں۔ وزیراعظم کے مو¿قف پر قانونی ٹیم رہتی تو تحریک استحقاق نہ بنتی۔ جب تیسرا وکیل بولے گا تو قطری تھری بھی سامنے آئے گا۔ عدالت کہتی ہے وزیراعظم کی تینوں تقاریر کا جائزہ لیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے ایوان میں تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت نہ دیئے جانے پر نعرے لگوائے تو سپیکر نے کہا آپ نے میری نرمی کا غلط فائدہ اٹھایا، مجھے اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور نہ کریں۔ آئی این پی کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیراعظم سے متعلق تحریک استحقاق کے بارے میں اپنی سابقہ رولنگ پر ممکنہ جائزہ لینے کیلئے قانونی ماہرین سے مشاورت کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں سے کہا ایوان میں اس معاملہ پر بات کرنے کیلئے احتیاط سے کام لیا جائے۔ کوئی اےسی بات نہ کی جائے جس سے عدالتی کیس پر اثرانداز ہونے کا تاثر جائے۔ اس امر کا اظہار سپیکر نے ایوان میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے اظہار خیال کے بعد کیا۔ سپیکر نے ایوان کو بتایا وہ اس معاملے پر دی گئی اپنی رولنگ کا چیمبر میں ابتدائی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔ قانونی ماہرین سے مشاورت کرونگا اس رولنگ کا کسی حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ نوائے وقت رپور ٹ کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا، وزارت داخلہ نے اپنے تحریری جواب میں بتایا گزشتہ ایک سال میں 448 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کیا گیا، شاہدہ رحمانی نے سوال کیا کیا ایم کیو ایم پرپابندی لگانے کی کوئی تجویز ہے؟ شاہدہ رحمانی کے سوال کا جواب اگلے وقفہ سوالات پر منتقل کر دیا گیا، وزارت خزانہ نے بتایا گزشتہ 3 سال میں 19 ارب 72 کروڑ 39 لاکھ 40 ہزار ڈالر غیرملکی قرضہ ملا، غیرملکی قرضے سے صوبوں کو 10.49 فیصد تقسیم کیا گیا۔ گزشتہ 2 سال میں انکم ٹیکس کے ایک لاکھ 94 ہزار سے زیادہ، سیلز ٹیکس کے 48 ہزار 765 اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے 762 نادہندگان کا سراغ لگایا گیا۔ گزشتہ 2 سال میں نیکٹا کے 22 اجلاس ہوئے نیکٹا نے اپنے ان ہاﺅس 35 اجلاس کئے۔ تین سال میں بیرون ملک سے ساڑھے 3 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ سوال کیلئے نام پکارنے پر طاہرہ اورنگزیب اپنی نشست سے دور تھیں۔ سپیکر نے طاہرہ اورنگزیب سے کہا آپ کہاں پھرتی رہتی ہیں۔ طاہرہ اورنگزیب نے جواب دیا ڈاکٹر نے کہا ہے واک کیا کرو جس پر سپیکر نے مسکرا اٹھے۔ قبل ازیں سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق کی زیر صدارت ہاﺅس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کا اپوزیشن نے واک آﺅٹ کیا اور اپوزیشن ارکان احتجاجاً باہر آ گئے۔ اپوزیشن ارکان نے کہا وزیراعظم کے خلاف تحریک استحقاق منظور کر کے بحث کرائی جائے۔ سپیکر نے کہا وزیراعظم کے خلاف کیس کی عدالت میں سماعت ہو رہی ہے اس لئے تحریک استحقاق پر بحث نہیں ہو سکتی۔ اپوزیشن نے سپیکر کا موقف تسلیم نہیں کیا اور اجلاس کا واک آﺅٹ کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے کہا وزیراعظم کے خلاف تحریک استحقاق ابھی مسترد نہیں کی گئی سپیکر کہتے ہیں نکتہ اعتراض پر اپوزیشن اور حکومت کا ایک ایک بندہ بولے، ایوان میں جا کر حکمت عملی کا اظہار کریں گے۔ قومی اسمبلی کا موجودہ اجلاس 2 ہفتے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
قومی اسمبلی/ لڑائی