بچوں اور خواتین کی جیلوں کی حالت زار پر سیمینار
خالد یزدانی
وفاقی محتسب کا ادارہ ایسا ہے جس سے وفاق کے سرکاری اداروں خاص طور پر الیکٹریسٹی اور گیس کے حوالے سے عوام کو جو مشکلات درپیش ہوتی ہیں‘ ریلیف دیتا ہے اگرچہ اس ادارہ کے ساتھ صوبائی محتسب بھی اپنا کام بحسن و خوبی کر رہے ہیں۔ اس وقت وفاقی محتسب اعلی کی ذمہ داریاں محمد سلمان فاروقی نبھا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں وہ لاہور آئے تو ان سے وفاقی محتسب کی کارکردگی پر گفتگو ہوئی۔ سلمان فاروقی نے بتایا کہ وفاقی محتسب کی حیثیت سے ہم نے 94 ہزار لوگوں کو ریلیف دیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے اندازاً 35 ہزار کے قریب وہ فیصلے بھی ہیں جو تحصیل و ضلع ہیڈ کوارٹر کی سطح پر دیئے گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت وفاقی محتسب کا ادارہ 130 ضلعوں اور 541 تحصیلوں کو کور کر رہا ہے اور اب فیصلہ پچیس دنوں میں کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ 2013ء سے پہلے ایسے فیصلے مہینوں نہیں سالوں میں ہوتے تھے اور بحیثیت وفاقی محتسب جب میں نے عہدہ سنبھالا 75 ہزار کیس زیرالتوا تھے اور جس تیز رفتاری سے ہم نے کام کیا۔ اس سے لوگوں کو اطمینان ملا کہ اب فیصلے ہماری زندگیوں میں ہی ہو جائیں گے۔سلمان فاروقی کا کہنا تھا کہ آج دور جدید میں ہمارے پاس انٹرنیٹ ای میل‘ ایس ایم ایس اور واٹس اپ کی سہولیات سے بھی مدد ملی ہے اور ہم کسی بھی شکایت کا چوبیس گھنٹوں کے اندر اسے رجسٹریشن نمبر دے دیتے ہیں اور پھر مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے یاددہانی بھی کروا دی جاتی ہے اسی طرح کسی بھی درخواست کے بعد ہم اطلاع بھی دے دیتے ہیں کہ ہم نے ریلیف دیا ہے یا درخواست مسترد کر دی ہے۔اسی طرح کمپلینٹ مینجمنٹ انفارمیشن سنٹر کی وجہ سے کوئی معلومات چاہئے تو وہ اسے فوراً مل جاتی ہے۔تمام بڑے ادارے سوئی گیس‘ لیسکو وغیرہ اب ڈاک کی بجائے جدید نظام سے استفادہ کرتے ہوئے پندرہ منٹ اطلاع ہو جاتی ہے۔
سلمان فاروقی نے جب سے وفاقی محتسب کی حیثیت سے کام کیا اس وقت سے وہ انتہائی جانفشانی سے عوام کے مسائل کو کم سے کم وقت میں حل کرنے کے لئے خود بھی کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی ٹیم کے ارکان بھی اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں۔ لاہور ہی میں قیام کے دوران
سلمان فاروقی نے لاہور میں بچوں اور عورتوں کی جیلوں میں ناگفتہ بہ حالت زار پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے عورتوں کی جیلوں میں حالتِ زار اور کم عمر بچوں کی مظلومیت پر مبنی رپورٹ جو کہ وفاقی محتسب اعلیٰ نے پیش کی ان کو بے حد خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا شکر ہے پاکستان میں کچھ لوگ اور ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام جو وفاقی محتسب کے ادارے نے سرانجام دیا کیا یہ کام پاکستان میں موجود متعلقہ ادارے جو ہر صوبے میں موجود ہیں وہ سرانجام نہیں دے سکتے تھے بقول محترمہ عاصمہ جہانگیر کے ملک میں طیبہ جیسی معصوم لڑکی پر جو ظلم ہوا اُس کی آئندہ روک تھام کا ذمہ پارلیمنٹ کا ہے ناکہ کورٹس یا عدالتوں کا۔ کیا اس ملک میں قانون سازی نہیں ہونی چاہیے کہ گھروں میں کمسن نوعمر بچے یا لڑکیاں مخصوص اوقات کے علاوہ کام نہ کریں۔ اُن کی صحت اور تعلیم کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے۔ بچے ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں اور ہم نے اُن کے حقوق کیلئے کیا کیا اور این جی او صرف عالیشان ہوٹلوں میں میڈیا کی مدد سے اور انٹرنیشنل فنانشنل ایڈ کے ساتھ زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ وفاقی محتسب کے زیرانتظام اس سیمینار میں مشہور قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے صدارت کی اور سٹیج سیکرٹری کے فرائض ایڈوائزر وفاقی محتسب عبدالباسط خان نے ادا کئے جبکہ پاکستان میں بچوں کے نیشنل کسٹمز اعجاز قریشی، سپریم کورٹ کے سابق صدر علی ظفر اور پاکستان کے محتسب اعلیٰ سلمان فاروقی نے بھی خطاب کیا، اعجاز قریشی کے مطابق وفاقی محتسب اعلیٰ نے پورے پاکستان میں بچوں کے حقوق کے دفاع کیلئے 13 کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جن میں سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی، شاہین عتیق الرحمن، ثمرمن اللہ، فرزانہ باری، میڈم ہما بقائی اور بیگم شہناز وزیر علی نمایاں ہیں جن کے ساتھ متعلقہ وفاقی محتسب کے اور صوبائی محتسب کے ریجنل ایڈوائزر اور ڈائریکٹر تعاون کرتے ہیں اور وہ ایسے تمام کیسز کا جائزہ لیتی ہیں جن میں بچوں کے ساتھ ناانصافی، گداگری اور اُن کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ کیا اس ملک میں پولیو کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔ کیا ایک اور پانچ سال کے بچوں کی اموات کی شرح کم ہو سکے گی۔ کیا ملک میں نوزائیدہ بچوں کے مرنے کی شرح جوں کی توں نہیں ہے۔ ان سب کا ذمہ دار کون ہے۔ سیمینار میں موجود سرکاری، نیم سرکاری این جی اوز کے علاوہ ملک کی ممتاز شوبز کی شخصیات نے بھی حصہ لیا۔ مشہور اداکار شجاعت ہاشمی، اورنگزیب، کارٹونسٹ جاوید اقبال، ناصر نقوی، احسان بٹالوی اور خالد محمود خالد نے بھی اس سیمینار میں شرکت کی اور بچوں کے حقوق اور جیلوں میں عورتوں کی حالتِ زار پر بحث میں حصہ لیا۔ علی ظفر نے سپریم کورٹ کے بچوں اور عورتوں کی رپورٹ پر نوٹس لئے جانے کو انتہائی مثبت اور اہم قدم قرار دیا۔
ایس ایم ظفر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جیلیں اصلاحی کردار ادا کریں اور مجرم بچے یا عورتوں کو بہتر انسان بنانے میں مدد کریں تاکہ وہ معاشرے میں اہم کردار ادا کریں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کریں لیکن بقول ان کے جو لوگ جیلوں سے باہر نکلتے ہیں وہ مزید عادی مجرم بن کر نکلتے ہیں اور معاشرے کی تصوریر کو اور بھیانک بناتے ہیں۔ آخر میں سلمان فاروقی نے تمام مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔