اعتدال کی تلقین
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص عبادت و ریاضت کے بڑے خوگر تھے۔ آپ اپنے احوال بیان کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ روزے سے رہتا اور ہر رات (نوافل میں) پورے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا۔ آنحضور(ﷺ) کے سامنے کسی نے میری اس عبادت و ریاضت کا ذکر کر دیا۔ آپؐ نے مجھے پیغام بھیجا میں آپکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا مجھے خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات قرآن پڑھتے ہو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے پیارے نبی اسی طرح ہے لیکن اس سے میرا مقصود طلب خیر ہے ریاکاری ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے لئے اتنا بہت ہے کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا۔ یا نبی اللہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔ تمہارے احباب کا تم پر حق ہے، اور تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لئے تم صومِ داؤدی اختیار کر لو، حضرت داؤد اللہ کے نبی اور لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ میں نے گزارش کی یا رسول اللہ صوم داؤدی کیسا ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا۔ پھر آپ نے فرمایا ہر ماہ میں ایک قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ارشاد فرمایا پھر بیس دن میں ختم کر لیا کرو، عر ض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا دس دنوں میں کر لیا کرو۔ عر ض کیا اے نبی اللہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا سات روز میں ختم کرو اس سے زیادہ نہ پڑھو کیونکہ تمہاری اہلیہ کا تم پر حق ہے، تمہارے ملاقاتیوں کا تم پر حق ہے اور تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے اپنے آپ پر خود تشدد کیا سو میر ے اوپر تشدد ہوا۔ آپ کہتے ہیں نبی کریم(ﷺ) نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ تم یہ نہیں جانتے کہ شاید تمہاری عمر دراز ہو یعنی تم اپنے لئے عبادت ریاضت اور مجاہدے کا یہ راستہ چن لو گے اور اپنے معمولات متعین کر لو گے۔ جب بوڑھے ہو جائوگے تو ضعف اور ناتوانی کی وجہ سے اپنے اسباقِ (عبادت و ریاضت) پورے نہیں کر پائوگے، یا پھر بڑی دشواری کیساتھ مکمل کروگے۔ اللہ کے راستے کے مسافروں کیلئے اپنے معمولات کا ناغہ کرنا اور اختیار کے بعد انہیں ترک کر دینا پسندیدہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں ویسا ہی ہوا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔ جب میں بوڑھا ہو گیا تو آرزو کرتا کہ اے کاش میں اپنے روف و کریم آقاء کی دی ہوئی رخصت قبول کر لیتا آپ یہ بھی فرماتے تھے ’’اگر میں تین دنوں کی وہ رخصت قبول کر لیتا جو مجھے آنحضورﷺ نے عطا فرمائی تھی تو یہ مجھے اہل و عیال اور تمام مال سے زیادہ محبوب ہوتا۔