نئی امریکی حکومت کے عالمی اثرات
گزشتہ روز نئے امریکی صدر نے حلف اٹھایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے ۴۵ ویں صدر ہیں ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔ جارج بش بھی اسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سیاسی پارٹی کے بینر پر جنگوں کی اور جنگویانہ عزائم کی ایک طویل فہرست پائی جاتی ہے۔ یہ سیاسی پارٹی اپنے معاملات کو طاقت کے ذریعے یاہر ممکن جائز و ناجائز طریقے سے حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص بڑی آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ ان سے معاملات طے کرنا آسان رہے گا۔ دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ دشمن سے بات کرنا‘ مذاکرات کرنا بہت عام فہم بات ہوتی ہے لیکن منافقت پسند‘ سیاسی دا¶ پیچ کے حامل مقتدر لوگوں سے معاملات طے کرنا بہت مشکل ہو تا ہے۔ کشمیر میں مودی سرکار نے ہر ممکن کوشش کر کے تحریک آزادی کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کشمیر کے لوگ اپنی آزادی کے حصول کے تقریباً قریب قریب پہنچ گئے ہیں۔ امریکہ میں رونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے امریکہ کی ایسی پالیسیاں جن کوبیک ڈور ڈپلومیسی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اب واضح ہو کر دنیا کے سامنے آئیں گی کیونکہ اب امریکی انتظامیہ کی باگ دوڑ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے۔ جو اپنا ایک واضح بیک گرا¶نڈ رکھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو مسلم دشمنی کی بنیاد پر ووٹ ملے ہیں گو کہ وہ ایک متنازع صدر ہیں لیکن اب وہ امریکہ کے صدر ہیں اور اس حقیقت میں باقاعدہ حلف اٹھا چکے ہیں۔ دنیا میں یہ بات تقریباً سب پر واضح ہے کہ امریکی حکومتوں پر یہودی اثرات بہت نمایاں رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ اثرات واضح طور پر پوری دنیا کو محسوس ہو نگے۔دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا اصل امتحان امریکہ کی معتدل مزاج اسٹیبلشمنٹ کو درپیش ہو گا۔ قرائن سے لگتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اس کڑی جانچ پڑتال کی ابتدا ہونے والی ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ کے اثرات پوری دنیا کے امن پر یقیناً منفی انداز میں ثبت ہونگے۔ امریکہ‘ روس تعلقات میں مزید خرابی اس دور میں متوقع ہے۔ روس باوجود یہ کہ افغان وار میں اپنے وقار سمیت بہت کچھ گنوا چکا ہے لیکن آج بھی وہ دنیا میں طاقت کا ایک بڑا دیو مانا جاتا ہے۔ اسی طرح چین نے اپنی اقتصادی ترقی کے ذریعے پوری دنیا کو سحرزدہ کر دیا ہے۔ امریکہ سمیت پوری دنیا کی مارکیٹ پر چین تیزی سے چھا رہا ہے۔ امریکہ چین کی اس تیز رفتار ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے میں ابھی تک تو ناکام ہوتا چلا آرہا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ چین کو اس تیز رفتار ترقی سے روکنے کے لئے ہانگ کانگ جزیزے کا معاملہ اور شمالی و جنوبی کوریا کے معاملات کو بہانہ بنا کر چین کو کسی جنگی سازشوں میں الجھانے کی ضرور کوشش کرے گا۔ اب یہ چین کی معتدل مزاج حکومت پر ہے کہ امریکہ کے ایسے اقدامات کے جواب میں کس قسم کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ غصہ انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ چین سمیت ہراس ملک کو غصہ دلاکر‘ دھمکی دے کر ‘ پریشان کر کے ضرور ایسے اقدامات پر اکسائے گا جس سے اس کی پوری دنیا پر حکمرانی کا سلسلہ ‘ خواب اور معاملہ متاثر نہ ہو۔ بہرحال بھارت جو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر امریکہ بننے پر بغلیں بجا رہا ہے اور وہاں کے جوتشیوں اور سیاسی جغادریوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کواپنے ملک کی عوام اور اپنے ملک کے لئے خوش آئند سمجھ لیا ہے۔ وہ بری طرح اپنے معاملات ڈونلڈ ٹرمپ سے طے کرنے میں ناکام ہو گا۔ کیونکہ امریکہ کو اپنی حکمرانی کے سفر میں غلاموں کی تو ضرورت ہو سکتی ہے دوستوں کی نہیں۔ امریکہ کی نظر بھارت کی وسیع منڈی پر ہے لیکن اس سلسلہ میں چین اور دیگر ممالک بھی بڑی سنجیدگی سے اقدامات کر رہے ہیں۔ بھارت بھی دراصل اپنے تجارتی معاملات اپنے سابقہ آقا انگلستان سے طے کرنے میں آسانی محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ روس‘ جرمنی‘ فرانس سے معاملات طے کرتا ہوا دیکھا گیا ہے خاص طور پر اسرائیل سے وہ اسلحہ کی خریداری کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔ اس طرح بھارت اسرائیلی یہودیوں کا بغل بچہ ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو امریکہ سے اپنی توقعات کا کینوس مزید چھوٹا رکھنے کے لئے سوچنا چاہئے۔ لیکن امریکہ دنیا کا اس وقت سب سے زیاد ہ طاقتور ملک ہے اس لئے سوچ سمجھ کر محتاط اندازمیں آگے بڑھنا ہو گا۔