قبائلی علاقو ں کا مستقبل ؟ اور چند تجاویز !
اب یہ ضروری ہوگیاہے کہ فاٹاکے حالات کو بہتر کرکے اسے اپنے پاﺅں پر کھڑا کردیاجائے کیونکہ ماضی میں سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اس علاقے کو مسلسل نظر انداز کیا گیا،ابتدا میں یہاں کے قبائلی سرداریہ نہیں چاہتے تھے کہ یہاں پر موجود ان کی روایتی اورخاندانی خودمختاری کو نقصان پہنچے اور ان کے معاملات میں حکومتی دخل اندازی کم سے کم ہووہ کسی بھی لحاظ سے ان قبائلی علاقوں میں حکومتی دخل اندازی کے حق میں نہیں تھے ،یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد بہت سے علاقوں سے فوج کی واپسی کے علاوہ یہاں کا نظام برطانوی انداز میں چلتارہا ۔ 2015اور16میں اس بات پر بحث شروع ہوئی کہ اب اس علاقے میں سیاسی، انتظامی اور اقتصادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ یہاں کے قبائلی علاقے بھی ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ان کے برابر آجائیں، ملک میں چھڑی کافی بحث وتمحیص کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اب ان قبائلی علاقوں کو خیبر پختوا میں ضم کردیا جائے ۔اور اس طرح ان علاقوں کو اس انتظامی نظام کے تحت کردیا جائے جو صوبہ خیرپختوانخوا کے دوسرے حصوں میں نافذ ہیں پشاورسے باہر نکلتے ہی قبائلی علاقوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے یعنی یہ پہلے ہی پشاور کے ساتھ کسی کسی نہ طرح سے لنک ہے مگر ان ٹرائبل ایریا کو گورنر کے ذریعے فیڈرل حکومت کنٹرول کرتی تھی اس میں صوبائی حکومت بھی کچھ نہ کچھ اپنا حصہ ڈال دیتی تھی ،دوسری جانب فاٹا کی تقریباً سات ایجنسیاں ہیں حال ہی میں فاٹااصلاحات پر بنائی گئی کمیٹی نے حکومت کو اپنی حتمی رپورٹ میں فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے اس میں فاٹا کی عوام کی تجویز کو شامل کرنا بھی ضروری ہے تاہم حتمی فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے ، مگر یہ کام اس قدر آسان بھی نہیں ہے اس معاملے کو آگے بڑھنے میں ایک مدت درکار ہوگی ،پھر بھی یہ ایک اچھا فیصلہ ہوگا کہ فاٹا کو خیبرپختونخواہ کا حصہ بنایا جارہاہے لیکن اس فیصلے کے ساتھ جب تک ٹرائبل ایریاکی بہتری کی طرف خصوصی توجہ نہ دی گئی تو صرف خیبرپختونخوا کا حصہ بنائے جانے سے اس علاقے کے حالات بہترنہیںہونگے،کیونکہ یہ قبائلی علاقے مسلسل عدم توجہ اور ایک طویل عرصہ سے سیاسی واقتصادی محرومیوں کا شکار چلے آرہے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ کہ ہے کہ وہ قبائلی خاندان جنھیں ملٹری آپریشنر کی وجہ سے اپنا گھر باراور کاروبارکو چھوڑنا پڑاان کی بحالی حکومت وقت کی پہلی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے ،اس سلسلے میں فوج ایک منصوبے کے تحت ایسے خاندانوں کو واپس لے جارہی ہے کیونکہ ان لوگوں کو بنیادی زندگی کی سہولیات مہیا کرناحکومت اور فوج کی بنیادی ذمہ داری ہے ،دوسری جانب ان تمام علاقوں کی ترقی کے لیے سڑکوں اور پلوں کے ذریعے اس طرح کے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ان لوگوں کو احساس ہوجائے کہ حکومت اب ان کے حالات میں بہتری لانے کے لیے زندگی کے نئے مواقع فراہم کررہی ہے،تیسرا اہم کام یہ ہے کہ ان کے لیے ذریعہ معاش یعنی کاروبارکے نت نئے مواقع پیدا کرنے کے اقدامات کرنے کے ساتھ ان لوگوں کی اس انداز میں مدد کی جائے کہ انہیں اپنا باعزت روزگار شروع کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہوچوتھا ایک اور مسئلہ ہے یہاں کے نوجوانواں کی تعلیمی وتربیت کے فروغ کے لیے تعلیمی اداروں کو قائم کیا جائے تاکہ انہیں اچھی اورسستی تعلیم وتربیت مہیا ہو پانچویں گزارش میں ان لوگوں کے لیے علاج معالجہ اور صحت کی بہترسہولیات کے لیے ہسپتالوں کا قیام اور بنیادی صحت کے مزاکر کوکھولنا ضروری ہے تاکہ ان کو مشکل اور بہت ہی پیچیدہ امراض کے لیے پشاور نہ آنا پڑے آخری اہم بات چونکہ یہاں کے لوگوں میں ایک طویل عرصے سے خوف اور دہشت کی فضاءقائم رہی ہے لہٰذا اگرقانون کی عملداری کو نافذ کرکے اچھے انتظامی اقدامات کیئے گئے تو لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال ہوگا اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہاں پر ایک عرصہ سے مقیم دہشت گرد تنظیمیں پھر سے واپس نہ آجائیں ایک اور اہم مسئلہ کہ جیسے ہی فاٹا صوبے کاحصہ بن جاتاہے تو اس کے بعد پورے ٹرائبل ایریا کوباقاعدہ عدالتی نظام اور صوبائی قوانین کے تابع بھی کردیا جائے تاکہ ان کو قانونی انداز میں وہ ہی سہولتیں مہیا ہو جوپورے پاکستان کی عوام کو حاصل ہیں۔ ایک تجویز یہ ہوگی کہ پاک چائینہ اکنامک کوریڈورکے کچھ پروجیکٹ قبائلی علاقوں میں بھی لگائے جائیں اور خیبرپختوانخوا کی حکومت بھی قبائلی علاقوں میں خصوصی انڈسٹریل زون بنائے اور اس کے ساتھ پورے پاکستان سے اس میں سرمایہ کاری کرکے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ پانچ سے دس سالوں میں ان قبائلی علاقوں کے لوگ بھی خوشحالی کی زندگیاں بسر کرسکیں ۔