مردم شماری شہری علاقوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں؟
سندھ میں مردم شماری شروع ہونے سے پہلے ہی قیاس آرائیاں ہرزہ سرائیاں شروع ہو گئی ہیں ۔ ماضی میں شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد کو آبادی کم دکھا کر مخصوص مفادات کے لئے نظر انداز اور حقوق سے محروم کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ شہری علاقوں میں جوش و خروش زیادہ ہے۔ انہوں نے اسے اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو زبردست فیصلے کئے جس میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد اور دوسرا مردم شماری شروع ہونے سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنا فرض ادا کردیا لیکن حکومتوں کی بد نیتی ختم نہیں ہوئی۔ کراچی میں دسمبر ۲۰۱۵ میں منعقد ہونے والے بلدیاتی الیکشن کو کھینچ تان کر ۳۰ اگست ۲۰۱۶ میں مکمل کیا گیا ۔ کے ایم سی کو تباہ کردیا گیا۔ ہر اہم محکمہ کے ایم سی سے چھین لیا گیا۔ دسمبر ۲۰۱۵ سے ۳۰ اگست ۲۰۱۶ تک کے ڈی اے، ماسٹر پلان، سولڈ ویسٹ، ڈیولپمنٹ ، لوکل ٹیکس، ایجوکیشن، صحت، سوشل ویلفیئر، کلچر و دیگر محکمے چھین لئے گئے۔ جبکہ کے ایم سی کی ریڑھ کی ہڈی آکٹرائے کو پہلے ہی چھینا جا چکا تھا۔ اسوقت میئر کراچی کے پاس اختیار اور ترقی کے لئے کوئی راستہ نہیں۔ خالی کے ایم سی کا خزانہ اور محدود وسائل ہیں ۔ گو سپریم کورٹ کے احکامات پر تو عمل ہوگیا لیکن سندھ کی حکومت نے وہی کیا جو اسکے دل میں آیا۔ سپریم کورٹ کو اس پر بھی سوموٹو ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ کراچی کی آبادی سوا دو کروڑ سے بھی زیادہ ہے جبکہ اسکی نشستیں قومی اور صوبائی میں اس تناسب سے نہیں ہیں ۔ جسکی وجہ غلط مردم شماری اور شہری علاقوں پر تعصب کرنے کے الزامات کی جانب جاتا ہے۔ شہری اور دیہی کی جنگ ایک طویل عرصے سے چل رہی ہے۔ کوٹہ سسٹم ختم ہوئے تین سال ہونے والے ہیں لیکن شہری علاقے ابتک انصاف کے طالب ہیں۔ اب جبکہ مردم شماری سپریم کورٹ کے حکم پر ہو رہی ہے اس بات کے خدشات ہیں کہ بلدیات کی طرح سندھ حکومت شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں من مانی کرکے ماضی کی طرح آبادی کم نہ ظاہر کردے۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ دعوی کہ صحیح مردم شماری کے بعد وزیر اعلیٰ ہمارا ہوگا درست ہے۔ مولا بخش چانڈیو کا یہ کہنا کہ اردو بولنے والے خود کو سندھی لکھیں۔ معنی خیز ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام ماضی میں اردو بولنے والے سندھی کہ اور لکھ چکے ہیں لیکن جب تقسیم اور ملازمتوں میں حصہ کا وقت آیا تو انہیں کوٹہ سسٹم کی نذر کردیا گیا۔ اسی طرح ملازمتوں میں شہری کوٹہ پر بھی اپنے ہی لوگ لگائے گئے جسکے بعد سندھی کی اصطلاح کو مہاجر دوبارہ لکھنے پر مجبور کیا گیا۔ اسوقت بھی مٹھاس کا مقصد دوبارہ اسی نعرے کی طرف لانا ہے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے حصے بخرے کرنا سب ایم کیو ایم سیاسی مخالف جماعتوں کی خواہش ہے لیکن ایم کیو ایم کے ۳۰ دسمبر کے نشتر پارک کے جلسے نے انکے ارمانوں پر اوس ڈال دی۔ اب گرفتاریوں اور دیگر طریقوں سے ایم کیو ایم کے کارکنان اور
ہمدردوں کو خوف زدہ کرکے انہیں عدم تحفظ کا احساس دیا جا رہا ہے لیکن ایم کیو ایم کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ اسکا ووٹ بنک Intact ہے اور اس پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اب ۱۷ فروری کو حیدرآباد میں بڑا جلسہ کرنے جا رہے ہیں ۔ جس سے انکے مینڈیٹ کی توثیق کے علاوہ ایک نئی گہما گہمی سامنے آئے گی شفاف مردم شماری نہ کی گئی تو اس پر عوامی رد عمل آسکتا ہے۔ اس لئے سندھ کی حکومت ہوش اور شعور سے کام لے اور حقیقت کو تسلیم کرے۔ شہر کراچی اور دیگر شہر انکا ہی حصہ ہیں ایسے حالات پیدا نہ کئے جائیں کہ یہ صوبہ کی تحریک یا کسی اور جانب رخ موڑنے کا موجب بنے۔ کراچی میں احساس محرومی بہت بڑ ھ چکا ہے ۔ اسکے سدباب کے لئے پیپلز پارٹی کو اچھا رویہ ادا کرنا چا ہئے ۔ ۴۰ ہزار ملازمتوں میں جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ افسوس ناک ہے میئر کراچی کو مکمل اختیارات دیئے جائیں ۔ وفاق بھی خصوصی گرانٹ دے۔ مردم شماری شفاف ہونے کی یقین دہانی اور اس پر عمل کیا جائے۔ قبضے اور فتح کرنے کی سوچ کسی کی بھی ہو ختم ہونی چاہئے۔