ہار ماننا منع ہے 

ایک مشہور فلسفی کا قول ہے ہارتا وہ ہے جو ہار مان لیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کے دوستوں نے بہت سی دیگر چیزوں کی طرح اس قول کو بھی عمران خان سے منسوب کررکھا ہے۔ شاید وہ ٹھیک ہی ہیں کیوں کہ الفاظ ایک جیسے سہی لیکن جو اس بڑے فلسفی نے بات کی تھی خاں صاحب کی تعلیمات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ مطلب تو سیدھا سا ہے کہ ہارنے سے مراد ہمت ہارنا ہے مشکلات آئیں رکیں نہیں،گر جائیں تو پھر اٹھیں،ہار جائیں تو دوبارہ مقابلہ کریں ،لیکن خان صاحب کے ہار نہ ماننے سے مراد اپنی شکست اور دوسرے کی فتح کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ یہ سب سمجھنے کیلئے ہمیں زیادہ نہیں بس تھوڑا پیچھے جانا ہوگا ۔
2011 میں تحریک انصاف کا ایک سیاسی قوت کے طور پر جنم ہوا دو سال بعد الیکشن ہوئے جس کے نتائج توقعات اور سرویز کے مطابق ہی تھے خاں صاحب کی جماعت کو اتنی نشستیں ملیں کہ اگر اس میں چار گنا اضافہ بھی کردیا جاتا تو وہ حکومت بنانے کے لئے درکار اکثریت پھر بھی حاصل نہ کرپاتے لیکن انہوں نے اپنی شکست اور مخالفین کی فتح کو تسلیم نہ کیا اور دھاندلی دھاندلی کا کھیل شروع کرکے اپنے کارکنوں کو احتجاج اور دھرنوں میں لگادیا،اپنی شکست کے جواز پیدا کرنے کیلئے اعلی عدلیہ سمیت بڑے آئینی اداروں کو متنازعہ بنادیا اور اپنے مہینوں چلنے والے دھرنوں میں کارکنوں کی جو “تربیت”کی انہیں جو “شعور” دیا وہ یہی تھا کہ شکست نہیں ماننی چاہے کچھ بھی کرنا پڑے،جو آپ کے لیڈر نے بتایا وہی سچ باقی سب جھوٹ ،2018 میں اقتدار مل گیا تو خاں صاحب اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں لگ گئے کہ آئندہ انہیں شکست نہ ہوسکے اور ان کے مخالفین کبھی جیت نہ سکیں اس کیلئے ضروری یہی تھا کہ مخالفین رہیں ہی نہ ،تو وہ سیاسی مخالفین کو ہی ختم کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے تو سیاسی مخالفت کو ہی وزراتوں کی اہلیت بنا ڈالا۔اب دیکھیں مراد سعید کو وزرات مواصلات اس لئے دی گئی کہ ان کے علاقے کے بڑے سیاسی حریف امیر مقام مشیر مواصلات رہ چکے تھے۔ علی امین گنڈا پور کا کشمیر سے کوئی تعلق نہ سہی چونکہ ان کے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے تھے تو گنڈاپور صاحب کو کشمیر کی وزرات دیدی گئی۔
 غلام سرور خان کو صرف اسلئے وزرات پیٹرولیم مل گئی کہ وہ اپنے سیاسی مخالف چوہدری نثارعلی خان پر بطور وزیر پیڑولیم کرپشن کے الزامات لگاتے رہے تھے، کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں جو پہلا فیصلہ کیا گیا وہ بڑے سیاسی مخالفین کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا تھا تو تاثر یا شاید حقیقت یہی تھی کہ خاں صاحب حکومت کر ہی اس لئے رہے ہیں کہ سیاسی مخالفین کو کرشن کیا جاسکے۔ سب کو چن چن کر جیلوں میں ڈالا، منشیات برآمدگی جیسے کیس بھی بنا ڈالے جو خود ان کے اپنے لوگوں سے بھی ہضم نہیں ہورہے تھے۔ پھر جب انہی مخالفین نے مل کر ان کی حکومت کو ختم کر ڈالا تو خان صاحب نے پھر شکست ماننے اور مخالفین کی فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس شکست کی ایک سے بڑھ کر ایک اور ایسی ایسی توجیہات پیش کرتے چلے گئے کہ پاکستانیوں کو ہی نہیں دنیا کو حیران اور پریشان کردیا امریکہ جیسا ملک رات دن وضاحتیں پیش کرنے لگا اور پھر اپنی شکست اور مخالف کی فتح تسلیم نہ کرنے کی اسی روش نے ہی انہیں 9 مئی تک پہنچا دیا جب مقبول پارٹی ناقابل قبول پارٹی بن گئی ، اس ہار نہ ماننے کا ہی نتیجہ تھا کہ پارٹی کی قیادت جیلوں میں پہنچ گئی کچھ نے سیاست سے ہی توبہ کرکے جان بچائی،سب سے بڑی پارٹی کا نام ہی بدل گیا اور اس کی حمایت سے جیتنے والے اب ایک ایسی جماعت کے رہنما کہلاتے ہیں جس کا نام شاید خاں صاحب کو بھی پہلے معلوم نہیں ہوگا ، حقیقت میں 2024 کے انتخابات سے پہلے ہی ان انتخابات کو متنازعہ بنادیا گیا تھا۔ یہ بات پہلے بھی ہم کرتے رہے ہیں کہ ان انتخابات کے نتائج کیسے بھی ہوں انہیں تحریک انصاف قبول نہیں کرے گی، اصل میں تحریک انصاف کا ہدف پارٹی کا نہیں عمران خان کا اقتدار ہے ایسا ان کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا کہ پارٹی حکومت میں ہو اور عمران خان باہر رہیں اور یہی ان کی جیت اس سے کم شکست اور ہار ہے جو انہوں نے نہیں ماننی کیونکہ یہی انہیں سکھایا گیا ہے کہ ہارتا وہی ہے جو ہار مان لیتا ہے ہار ہی نہ مانیں تو کوئی کیسے آپ کو ہرا سکتا ہے اس لئے ہار ماننا منع ہے ہم نے تو کسی صورت نہیں ہارنا،آپ کرلیں جو کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن