نئی حکومتیں اور انتشار کی سیاست




 طے شدہ ڈیزائن کے مطابق حکومتیں تشکیل پا رہی ہیں جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے اس وقت تک پنجاب میں مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی منتخب ہونے کا اعزاز اپنے نام کر چکی ہوں گی سندھ میں مراد علی شاہ تیسری بار وزیر اعلی منتخب ہو کر سندھ میں وزارت اعلی کی ہیٹرک اپنے نام کر چکے ہوں گے لیکن جن حکومتوں کا آغاز ہو رہا ہے ان کی بنیادیں انتشار کی سیاست پر رکھ دی گئی ہیں۔
 پارلیمان کے افتتاحی اجلاس ہمیشہ خوشگوار ماحول میں ہوا کرتے تھے کیونکہ ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے آنے والے اراکین اسمبلی ایک دوسرے کو مبارکبادیں پیش کرتے تھے راہ ورسم بڑھانے کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا جاتا تھا حکومت اپوزیشن سے تعاون اور ساتھ لے کر چلنے کی باتیں کرتی تھی اور اپوزیشن حکومت کے اچھے کاموں میں تعاون کرنے اور مثبت تنقید سے معاملات کو آگے بڑھانے کے عہد وپیماں سے پارلیمنٹ کی کارروائی کی ابتدا کرتی تھی لیکن اس بار بہت کچھ عجیب ہو رہا ہے۔
 انتخابات سے قبل ہی ماحول ایسا پیدا ہو چکا تھا کہ جس سے خیر کی توقع نہیں تھی سیانے کہتے ہیں کہ جو بیج بوئیں گے وہی فصل کاٹیں گے انتخابات میں جو کچھ بھی ہوا مخالفین کی مشکیں باندھ کر جب مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا گیا تھا جب تینوں صوبوں اور مرکز میں اپنی پسند کی حکومتیں بن رہی تھیں تو پھر آذاد جیتنے والوں کو کچھ تو آذادی دے دینی چاہیے تھی تاکہ معاملات سڑکوں پر آنے کی بجائے ایوانوں میں زیر بحث لائے جاتے۔
مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ باقی سب جماعتوں کو انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے اطمینان کی کوئی راہ نکالی جاتی لیکن ان کو ڈرایا جا رہا ہے کہ خبردار تمھاری آواز نہ نے ورنہ بہت برا ہو گا بالفرض اگر دھاندلی کے بارے میں ایوانوں کے اندر احتجاج یا گفتگو ہو جاتی تو کونسی قیامت آجانی تھی لیکن اب جو انتشار کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
 کراچی میں سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے والی خواتین کو جس طرح سے گھسیٹا گیا جس طرح ان کے بال نوچے گئے اور جو تشدد ہوا کیا یہ خوف کی فضا آپ قیامت تک برقرار رکھ سکیں گے اسی طرح پنجاب میں تحریک انصاف کے آزاد نمانے اراکین اسمبلی کو اسمبلی کے اندر جانے کی اجازت نہ تھی اسمبلی کے باہر کرفیو کا سماں تھا اراکین چھپتے چھپاتے حلف اٹھانے اسمبلی میں پہنچے۔ تحریک انصاف جو کہ آذاد سے سنی تحریک کے طور پر جانے جاتے ہیں کے وزارت اعلی کے امیدوار میاں اسلم اقبال کی گرفتاری کے لیے پورے پنجاب کی پولیس متحرک ہے۔ فورس ہر کونے کھدرے پر پہرے دے رہی ہے کہ کہیں میاں اسلم اقبال جل دے کر اسمبلی میں نہ پہنچ جائے جب آپ کے پاس نمبر گیم پوری ہے تو پھر آپ کو خوف کس بات کا ہے کھلے دل سے مقابلہ پر آنے دیتے اچھی جمہوری روایات کا آغاز ہوتا لیکن نئی آنے والی حکومتیں پہلے سے پیدا کردہ خوف کی فضا کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں اور مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین کو خوفزدہ رکھ کر ان کو دباو میں رکھا جائے گا وہ کھل کر بات نہیں کر پائیں گے انھیں یہ بھی خوف ہو گا کہ کہیں انھیں اسمبلی کی رکنیت سے محروم نہ کر دیا جائے تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اگر آپ حلف اٹھا رہے ہیں تو ہماری مرضی اور اجازت سے اٹھا رہے ہیں ہم جس کو چاہیں گے وہ اسمبلی میں داخل ہو سکے گا جسے چاہیں گے اسے روک دیا جائے گا۔
 اب تحریک انصاف نے میاں اسلم اقبال کی جگہ رانا آفتاب احمد خان کو وزارت اعلی کا امیدوار نامزد کرنا پڑا اور دلچسپ امر یہ ہے کہ رانا آفتاب کو بھی مال روڈ پر روک لیا گیا وہ پیدل چل کر اسمبلی پہنچے دراصل یہ تمام تر حربے ان ارکان اسمبلی کو یاد کروانے کے لیے ہیں کہ تم ابھی قابل قبول نہیں ایسے ہی ہتھکنڈوں سے کافی سارے ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خرید لی گئی ہیں اور باقیوں کو بھی یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ساڈے نال رہوں گے عیش کرو گے زندگی دے سارے مزے کیش کرو گے نیں تے کھجل خوار ہی ہوتے رہو گے یہ نئے دور کے نئے جمہوری تقاضے متعارف کروائے جا رہے ہیں۔
 صدرمملکت عارف علوی تاحال قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلا رہے کہ ابھی تک مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوا اور ایوان نامکمل ہے پنجاب میں تو نامکمل ایوان سے ہی سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعلی کا انتخاب ہو چکا پرانے سپیکر سبطین خان نے کوشش کی کہ ہاوس مکمل ہونے تک سپیکر کا الیکشن نہ ہو سکے لیکن وہ جلد ہی طاقت کے آگے سرنڈر کر گئے توقع تو ہے کہ اس کالم کی اشاعت تک مخصوص نشستوں بارے الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ کر دے مگر یہ بھی ممکن ہے وفاقی حکومت بھی صوبوں کی تقلید کرتے ہوئے نامکمل ایوان سے ہی تشکیل پا جائے چند دن کے مہمان صدر بھی زیادہ دیر رکاوٹ نہیں بن سکیں گے صدر مملکت کو یہ سمجھ لینا چاہیے دلہن وہی جو پیا من بائے باقیوں کی کوئی اوقات نہیں۔

ای پیپر دی نیشن