ڈاکٹر وحید قریشی: ایک دیوقامت شخصیت

ڈاکٹر وحید قریشی ان لوگوں میں سے تھے جنھیں قدرت وافر صلاحیتیں عطا کرتی ہے۔ وہ تحقیق، تنقید، شاعری اور خطابت میں ممتاز تھے۔ آواز بہت بلند اور گمبھیر۔ گفتگو کرتے تو مخاطبین پر چھا جاتے۔ بہت سال سے دمے کے مریض تھے مگر آواز کی گھن گرج روزِ آخر تک برقرار رہی۔ پہلو دار اور متنوع صلاحیتوں کے حامل افراد بالعموم یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انھیں اپنی کون سی صلاحیتوں پر ارتکاز کرنا چاہیے۔ جوانی میں ایسے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عمرِ خضر لے کر پیدا ہوئے ہیں اور مختلف اطراف و جوانب میں کام کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ عمر رفتہ رفتہ ڈھلتی چلی جاتی ہے اور بے معلوم طور پر وقت گزرتا رہتا ہے حتیٰ کہ بڑھاپا آ جاتا ہے۔ پھر مختلف قسم کے امراض جسم پر حملہ آور ہونے لگتے ہیں۔ تب احساس ہوتا ہے کہ
کام کا شاید زمانہ ہو چکا
دل میں اب اٹھتی نہیں کوئی امنگ
اکثر انسان اپنے آپ کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ابھی مجھے بہت جینا ہے مگر یہ خود فریبی تابہ کے برقرار رہ سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جوانی میں یہ سمجھتے تھے کہ انھیں بے شمار موضوعات پر کام کرنا ہے۔ فارسی ادب، اردو ادب، پنجابی ادب، تاریخ، تحریکِ پاکستان، لسانیات، غرض خدا معلوم کس کس موضوع پر وہ کیا کچھ جمع کرتے رہے۔ جب ان کے ہاں میری آمدورفت معمول کی حیثیت اختیار کر گئی تو انھوں نے مجھے اپنی لائبریری تک رسائی دیدی۔ اس وقت ان کے پاس 30 ہزار کتابیں اور 40 ہزار رسائل تھے۔ پھر ان کی تعداد بڑھتی گئی۔ وہ کتابیں خریدنے پر تنخواہ کا کافی حصہ صرف کرتے تھے۔ ان کے اس شوق کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے مشہور شاعر میر حسن پر جب ڈی لٹ کی ڈگری لی تو اس موضوع پر تحقیق کے دوران انھیں میر حسن کی مشہور ترین مثنوی ’سحر البیان‘ کی معیاری تدوین کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے لیے انھوں نے متعلقہ موادجس طرح اکٹھا کیا اس پر مجھے حیرت ہوتی تھی۔ مذکورہ مثنوی کے مطبوعہ نسخوں کے علاوہ نادر مخطوطات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جن لوگوں نے یہ مثنوی پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کی جزئیات کے بیان میں تفصیل سے شاہی درباروں کے رسم و رواج کا ذکر ہوا ہے۔ علاوہ ازیں، تقریبات کے ٹھاٹھ باٹھ، شاہی باغات کی شان و شوکت، باغات کے اندر پودے اور پھول، ان میں چہچہانے والے پرندے، جشن میں موسیقی کے ماہرین اور ان کے طرح طرح کے سازوں، سازندوں اور راگوں کا ذکر، غرض ’سحر البیان‘ کی منظری نگاری اتنی دل نشیں ہے کہ جس سے تمام حواس متاثر ہوتے ہیں۔
متن پر حواشی لکھنے کے لیے وحید قریشی نے پھلوں، پھولوں، پرندوں، اور سازوں وغیرہ پر کتابیں جمع کرنا شروع کر دیں مگر اس مثالیت پسندی سے کبھی کوئی کام تکمیل پذیر نہیں ہوا۔ چنانچہ اصل کام وہیں کا وہیں رہ گیا۔ معلوم نہیں ایسے کتنے منصوبے انھوں نے شروع کیے مگر ان میں سے شاید ہی کوئی مکمل ہوا ہو۔ تاہم اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ انھوں نے کوئی اہم کام نہیں کیا۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ جو اب تک بدقسمی سے شائع نہیں ہو سکا اور جس کا عنوان ’فارسی میں انشائی لٹریچر‘ ہے، اپنے موضوع پر بہت اچھا کام ہے۔ اسی طرح ان کا ڈی لٹ کا مقالہ ’میر حسن اور ان کا زمانہ‘ میر حسن پر ہونے والے اہم کاموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فارسی، اردو، پنجابی اور انگریزی میں ان کی تحقیقی، تدوینی اور تنقیدی کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر ان کی فہرست بہت کوشش سے تیار کی جائے تو یہ تعداد ستر سے بھی تجاوز کر جائے گی اور ان میں بہت سا کام یقینا اہمیت رکھتا تھا۔
علاوہ ازیں، تین شعری مجموعے اور تقریباً تین ہزار غیر مطبوعہ ’دوہے‘ بھی ہیں مگر اس سلسلے میں ان کی دو کتابوں کا خصوصاً ذکر کروں گا جو ان کی شہرت کی بنیاد بنیں اور بہت سے لوگ انھی کتابوں کے حوالے سے انھیں جانتے ہیں۔ان کی پہلی کتاب ’شبلی کی حیاتِ معاشقہ‘ ہے جو 1950ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر پچیس سال تھی۔ یہ بھرپور جوانی کا زمانہ ہوتا ہے۔ پھر ادبی حلقوں (حلقۂ اربابِ ذوق وغیرہ) میں شرکت کے سبب تنقید میں انھوں نے جارحانہ انداز اپنا لیا تھا۔چونکہ شبلی نعمانی کو مقدس شخصیات پر تحریروں کے سبب ایک تقدس حاصل ہے اس لیے لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ انسان بھی تھے اور انھیں عشق بھی ہو سکتا تھا، چنانچہ وحید صاحب پر تلخ تنقید ہوئی اور برا بھلا بھی کہا گیا لیکن اس سے انھیں یہ فائدہ ہوا کہ ان کو دنوں میں وہ شہرت مل گئی جو برسوں میں حاصل ہوتی ہے۔ پھر انھوں نے اس کے تین سال بعد حالی کی مشہور و معروف نظری تنقید کی کتاب ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کی تدوین کی۔ یہ بہت عمدہ کام ہے۔ ایک تو اس لیے کہ انھوں نے اسے پہلی اشاعت کے مطابق اور درست متن کے ساتھ چھاپ دیا۔ علاوہ ازیں، ڈاکٹر صاحب نے حالی کی تنقید کے بہت سے مغربی اور مشرقی مآخذ ڈھونڈنکالے ہیں۔ یہ کام بڑی جستجو اور ذہانت کا ہے۔ اس سے ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کی تفہیم میں بہت مدد ملتی ہے مگر حالی کی شخصیت اور مقدمے کی تفہیم کے سلسلے میں اصل متن سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس میں بہت کچھ خلطِ بحث کیا ہے۔ مجبوراً ڈاکٹر صاحب کے مرتبہ ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کی ایک اشاعتِ نو (الحمد پبلی کیشنز لاہور، مطبوعہ 2018ئ) پر میں نے چند صفحات ’مقدمہ در مقدمہ‘ کے عنوان سے لکھے جن میں ڈاکٹر صاحب کی کچھ باتوں کی تغلیط کی گئی ہے۔
اس کتاب میں بد قسمتی سے بعض جگہ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب ناشائستہ ہو گیا جس کا ایک سبب ان کی جوانی کا دور ہے اور دوسرا سبب حلقوں کی بحث و تمحیص کے اثرات ہیں۔ ان کا اسلوب بعض اوقات خاصا تکلیف دہ ہو جاتا ہے جو غالباً قاری کو اکسانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال درج کر رہا ہو۔ وہ لکھتے ہیں، ’سائنس اور مذہب کی جنگ میں مطابقت اور مفاہمت کی کوششوں نے کبھی اعتذار کا پہلو لیا ہے اور کبھی تاویلوں کا۔ اس سے نہ تاریخ بچی ہے، نہ مذہبی کتابیں اور نہ تنقیدی نگارشات۔ شبلی، حالی، سرسید، آزاد، نذیر احمد، مرزا رسوا اس حمام میں سب ننگے ہیں۔‘ یہاں ڈاکٹر صاحب کو بتانا چاہیے تھا کہ اعتذار اور تاویل کے سوا اس دور میں اور کون سا راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا؟ غالباً صرف یہ کہ عقیدے کو دلائل و براہین کے بغیر قبول کرلینا چاہیے لیکن اس سے مستشرقین اور مشنریوں کے اعتراضات کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ خیر، اس بحث میں پڑنے کا یہ موقع نہیں ۔ کہنا یہ ہے کہ کئی جگہ ڈاکٹر صاحب کا اندازِ بیان نامناسب ہے۔ خیر:
مقطعے میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
میری اس ساری تحریر کا ملخص یہ ہے کہ ڈاکٹر وحید قریشی کو قدرت نے بے شمار صلاحیتیں دی تھیں۔ اورینٹل کالج کے شعبۂ اردو کا آغاز ڈاکٹر سید عبداللہ کی کوششوں سے 1947ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے سے لے کر 1960ء تک (جب میں طالب علم کی حیثیت سے یہاں آیا) شعبۂ اردو سے جو اساتذہ وابستہ رہے ان میں چند بہت مشہور لوگ شامل تھے جن سے استفادے کا مجھے موقع ملا۔ان میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ تو بے مثال تھے۔ ان کے بعد مجموعی طور پر میں ڈاکٹر وحید قریشی سے دیگر تمام اساتذہ کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوا۔ ان کا حافظہ بے مثال تھا، علمی اور ادبی مآخذ پر عبور تھا، بے حد ذہین تھے، بذلہ سنجی میں لاجواب تھے، روزمرہ زندگی اور تنقید و تحقیق میں دو ٹوک بات کرتے تھے، مالی امور میں بے حد دیانت دار تھے۔ ان مثبت باتوں کے ساتھ کچھ کمزوریاں تھیں جو لازمۂ بشریت ہیں۔ (ختم شد)