پاک بھارت ڈی جی ایم اوز میں جنگ بندی معاہدے سمیت تمام معاہدوں کی مکمل پاسداری پر اتفاق
پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل برائے ملٹری اپریشنز نے تمام معاہدوں‘ مفاہمت کی یادداشتوں‘ کنٹرول لائن اور دوسرے تمام سیکٹروں میں جنگ بندی کی مکمل پاسداری پر اتفاق کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن کے مروجہ طریقے سے باہم رابطہ قائم ہوا جس کے دوران انہوں نے کنٹرول لائن اور دوسرے تمام سیکٹروں میں صورتحال کا کھلے‘ بے تکلفانہ اور خوشگوار ماحول میں جائزہ لیا۔ اس رابطے کے دوران طے ہوا کہ باہمی مفاد اور پائیدار امن کے حصول کیلئے ایک دوسرے کے ان تمام بنیادی ایشوز اور تحفظات کو دور کیا جائیگا جو امن کو متاثر کرکے تشدد کی جانب لے جا سکتے ہیں۔ طرفین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ کنٹرول لائن اور تمام سیکٹروں میں معاہدوں‘ مفاہمت اور جنگ بندی کی سختی سے پاسداری کی جائیگی۔ یہ پاسداری 24‘ اور 25 فروری کی درمیانی شب سے شروع ہو چکی ہے۔ دوران رابطہ یہ بھی طے ہوا کہ کسی بھی غلط فہمی یا ناگہانی پیش آنیوالے واقعہ کو حل کرنے کیلئے ہاٹ لائن اور فلیگ سٹاف میٹنگ کے طریق کار سے استفادہ کیا جائیگا۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن اور دیگر سیکٹروں میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کیلئے آمادگی کو ’’دیرآید درست آید‘‘ قرار دیا اور گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا کہ بھارت اس معاہدے کی پاسداری کرتا ہے تو یہ آگے کی طرف ایک مثبت قدم ہوگا۔ انکے بقول بھارت کے پانچ اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدام کے بعد ماحول میں جو بگاڑ پیدا ہوا اسکی درستگی کیلئے وہ بھارتی آمادگی کو ایک اہم موقع سمجھتے ہیں۔ یہ مستقبل کیلئے ایک اچھا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت کو خلوص نیت کے ساتھ سیزفائر معاہدے کی پاسداری اور کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کے تحت پاکستان بھارت کے ساتھ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے ہمیشہ اچھے دوستانہ مراسم کا خواہش مند رہا ہے اور آج بھی اس اصول پر ہی کاربند ہے۔ اسکے برعکس بھارت نے قیام پاکستان کے وقت سے اسکی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا طے کرلیا تھا جس پر ہر بھارتی حکومت نے عملدرآمد کیا اور اسکی ابتداء پنڈت جواہر لال نہرو نے قیام پاکستان کے بعد آزاد ریاست جموں و کشمیر پر تقسیم ہند کا فارمولا لاگو نہ ہونے دیکر کیا۔ اس فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نوشتۂ دیوار تھا اور کشمیریوں نے قیام پاکستان سے پہلے اپنے ایک نمائندہ اجلاس میں پاکستان سے الحاق کا فیصلہ بھی کرلیا تھا مگر نہرو نے اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت کشمیر کا تنازعہ پیدا کردیا اور اسکے تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا۔ ان کا ایجنڈا یہی تھا کہ کشمیر کے راستے پاکستان جانیوالے دریائوں کا پانی روک کر اسکی سلامتی اتنی کمزور کر دی جائے کہ وہ مجبور ہو کر واپس بھارت کی گود میں آگرے۔ اس حوالے سے نہرو بڑ بھی مارتے رہے اور کشمیر میں بھارتی افواج بھی داخل کردیں۔ بھارت کو اسکے برعکس سلامتی کونسل میں منہ کی کھانا پڑی جس نے کشمیریوں کے استصواب کے حق میں فیصلہ دیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کا کہا تاہم بھارت عالمی فورم پر اسکی یقین دہانی کراکے سلامتی کونسل کی قرارداد سے منحرف ہو گیا اور پھر کشمیر کے ایک حصے پر بزور تسلط جما کر اسے بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔ اس طرح اس نے پاکستان کے ساتھ بھی تنازعہ پیدا کیا اور پھر یہ تنازعہ پانی کے تنازعہ کی شکل میں بھی سامنے آگیا۔
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک درحقیقت بھارت ہی پاکستان کے ساتھ تنازعات پیدا کرتا اور دوطرفہ علاقائی اور عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ وہ سیزفائر معاہدے کی پاسداری کا جائزہ لینے کیلئے کنٹرول لائن پر جانے والے اقوام متحدہ کے فوجی اور غیرفوجی مبصرین اور مندوبین کے ساتھ چھیڑچھاڑ سے بھی گریز نہیں کرتا اور یہ حقیقت باضابطہ طور پر ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہمیشہ بھارت نے کی ہے جس کی فوجیں آج بھی کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف بلااشتعال کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے گزشتہ دنوں اپنی پریس بریفنگ میں بھارت کی جانب سے تین سال کے عرصہ میں کنٹرول لائن پر کی گئی جنگ بندی معاہدے کی تمام تفصیلات بھی پیش کی ہیں جبکہ پاکستان نے ہر بھارتی اشتعال انگیزی پر ہمیشہ جوابی کارروائی کی ہے اور بھارتی فوجوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ دو سال قبل آج ہی کے دن 27 فروری 2019ء کو بھارت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کے ارتکاب کی نیت سے اسکی فضائی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے طیاروں کو پاک فضائیہ کے چوکس دستے نے فضا میں ہی دبوچا اور دو طیارے مار گرائے۔ اس سے ایک روز قبل 26 فروری کو بھی بھارت پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرچکا تھا۔ بھارت تو آج تک مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کو خاطر میں نہیں لایا۔ اور تو اور اس نے پاکستان کے ساتھ طے کئے گئے 1972ء کے شملہ معاہدہ کی بھی آج تک پاسداری نہیں کی جس کے تحت کسی دوطرفہ تنازعہ کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا طے کیا گیا تھا۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے کسی عالمی‘ علاقائی اور دوطرفہ معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں اور پانچ اگست 2019ء کو وہ اپنے زیرتسلط کشمیر کو بھارت میں ضم کرکے درحقیقت یواین قراردادوں‘ سارک سربراہ کانفرنس اور ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے اعلامیوں اور شملہ معاہدہ کو پائوں تلے روند چکا ہے اور اسکی ہٹ دھرمی کے تناظر میں آئندہ بھی اس سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنے اور اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کے بعد بھارت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے تو ہمیں اسکے ساتھ امن کی خواہش رکھتے ہوئے اپنی سلامتی کے تحفظ کا بھی بہرصورت چارہ کرنا ہے۔ اگر بھارت سامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کر دیتا ہے تو ہمارا اسکے ساتھ اور کیا جھگڑا ہے۔ تاہم وہ کشمیر پر ہٹ دھرمی برقرار رکھے گا اور پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کریگا تو یہ علاقائی اور عالمی امن و امان خراب کرنے والے اسکے شرارتی ذہن کا ہی عکاس ہوگا۔ ہمیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور امام صحافت مجید نظامی کا یہ قول نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت کیلئے ریشہ خطمی ہونا درحقیقت اپنے دشمن سانپ کو دودھ پلا کر موٹا تازہ کرنا ہے جس کے ڈنک سے ہم پھر بھی نہیں بچ سکتے۔ اپنے ہمسائے سے دوستی کی خواہش میں کوئی مضائقہ نہیں مگر وہ اس کیلئے خلوصِ دل سے آمادہ تو ہو۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024