ہفتہ‘ 14 رجب المرجب 1442ھ‘ 27؍ فروری 2021ء
پنجاب میں سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب
پنجاب میں 11 سینیٹرز بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں جن میں پانچ تحریک انصاف ، پانچ مسلم لیگ (ن) اور ایک اکلوتا مسلم لیگ (ق) کا سینیٹر شامل ہے جس کا سہرا بلاشبہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے سر ہے ، حکومت اور اپوزیشن رہنما بھی کھل کر داد دے رہے ہیں کہ سارا کریڈٹ چودھری پرویز الٰہی کا ہے ، چودھری برادران کی سیاسی بصیرت ، رواداری ’’مار دھاڑ‘‘کے سیاسی دور میں یقیناً غنیمت ہے اور پھر جب ’’علانیہ‘‘ اور ’’خفیہ‘‘ ووٹنگ کا معاملہ بھی حل طلب ہو ایسی صورتحال میں چودھری پرویز الٰہی نے وہ کردار ادا کیا کہ اپنے پرائے سب داد دینے پر مجبور ہوئے کہ ’’لوکیں گلّاں کر دے رہ گئے، چودھری بازی لے گیا۔‘‘ اس پرکہا جا سکتا ہے کہ …؎
یارب! وفائے عذر محبت کی خیر ہو
نازک سا اعتراف بھی آج اس نظر میں ہے
بہرحال ایک طرف قومی وسائل اور اداروں کا قیمتی وقت صرف اس پر ہی ضائع کیا جا رہا ہے کہ
’’کوا کالا ہے یا سفید‘‘۔ اور بقول شاعر …؎
وہ ہیں ، ڈور کانٹے لیے ہوئے
جنہیں مچھلیوں کی تلاش ہے
تاہم پنجاب میں 11 سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب امید افزا ، قابل تحسین بھی ہے اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی سیاسی بصیرت کا شاہکار بھی ۔ اور ’’مٹی پائو‘‘
بے ضرر جیسی پالیسی کا عمدہ اظہار بھی ہے۔
ہوئیں زرد پھولوں کی بستیاں مگر اس میں تیری خطا کہاں
تجھے لوگ دل سے دعائیں دیں ، یہی تیرے فن کا کمال ہے
٭٭٭٭٭
حلیم عادل شیخ سستی شہرت کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں: سعید غنی
سیاست میں شہرت ’’نئے نویلے‘‘ یا ’’پاٹے پرانے‘‘ ہر سیاستدان کی خواہش ہوتی ہے ، دلوں کی تسخیر کے لیے وہ سالوں کا سفر دنوں میں طے کرنا چاہتا ہے ، سیاست میں شہرت کے لیے روایات کی پاسداری اخلاقی قدروں کو مدنظر رکھنے کا رواج اگرچہ کم کم ہی ہوتا ہے تاہم سستی شہرت کے لیے اتنا مہنگا سودا تو نہیں کوئی کرتا ہے ، سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کا اشارہ یقینا حلیم عادل شیخ کے کمرے میں سانپ نکلنے کے واقعہ کی طرف ہی ہو گا ، ایسے واقعہ کو تو کوئی ’’سپیرا‘‘ بھی سستی شہرت کے لیے استعمال نہیں کرے گا اور پھر ایسا شخص جو اس وقت نہ صرف تنہا ہو بلکہ ’’نہتا ‘‘ بھی ہو وہ کیسے سستی شہرت کے لیے جان کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ سانپ کودیکھ کر تو کھلے میدان میں بھی(جہاں دوڑ دھوپ کی گنجائش اور مواقع ہوتے ہیں) خوف کے باعث کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے جب بندہ کمرے میں بند ہو اور کوئی کھڑکی ، روشن دان بھی نہ ہو جس سے کود سکے توایسی صورتحال میں تو خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ہمارا معاشرہ نفسانفسی ، خود غرضی اور ظلم و ناانصافی کی آج جس انتہا پر پہنچ چکا ہے اس کے لیے سانپ چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ …؎
مقّید کر دیا سانپوں کو ، یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
٭٭٭٭
ایف اے ٹی ایف نے پاکستانی صحافیوں کو نظرانداز کیا ، بھارتی صحافیوں کو سوالات کی اجازت دی
کسی فرد یا ادارے کی جانبداری کا پتہ ایسی ہی حرکتوں سے چلتا ہے ، اب پیرس میں ایف اے ٹی ایف (فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس) کے اجلاس میں پاکستانی صحافیوں کو اسی لیے نظر انداز کیا گیا ہے کہ کہیں وہ یہ نہ پوچھ لیں کہ ’’جناب یہ کون سا معیار ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو فنڈنگ کے حوالے سے بھارت پوری دنیامیں بدنام ہے ، مقامی اور عالمی میڈیا نے بھی کرتوت بے نقاب کیے ہیں لیکن ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ اندھی ، بہری اور گونگی ہے۔‘‘ اسی لیے پاکستانی صحافیوں کو سوالات کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب ظاہر ہے بھارتی صحافی تو یہ سوال نہیں کریں گے کہ ’’بھارت بھی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو فنڈنگ میں ملوث ہے ، ایف اے ٹی ایف اس کو کب بلیک لسٹ میں ڈالے گی‘‘۔ اس لیے ’’دال میں کچھ کالا نہیں‘‘ بلکہ جانبداری کی ہنڈیا میں پکنے والی ایف اے ٹی ایف کی ساری ’’دال‘‘ ہی کالی سیاہ اور خراب ہے۔ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا کو عالمی اداروں کی ایسی حرکتوں اور جانبداری کا سامنا رہتا ہے اس کے باوجود اسلامی دنیا کی جبین پر کبھی شکن نہیں پڑی ، اسی لیے وہ ایک ایک کر کے مار کھائے جا رہے ہیں ، عالمی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ہر حکم کو (علی الراس والعین) سرآنکھوں پر کہتے ہیں تاکہ …؎
منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں
٭٭٭٭٭
کرم میں بھی دھاندلی ہوئی: مولانا فضل الرحمن
مولانا کا موقف اپنی جگہ۔ لیکن اب تک تو ڈسکہ الیکشن کی ’’دھاندلی‘‘ کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، پھر عملہ ۔بھی ’’لاپتہ‘‘ رہا۔ وہ بھی بڑی ’’فکر مندی‘‘ کی بات تھی۔ اب ڈسکہ کی حد تک تو الیکشن کا ’’اونٹ دھاندلی والی کروٹ‘‘ بیٹھ چکا ہے ، ٹھیک ہے اب مولانا فضل الرحمن بھی ’’دھاندلی کی دھوڑ میں ٹٹو دوڑائیں‘‘ شاید دوبارہ الیکشن کی ’’منزل‘‘ مل جائے۔ ویسے اس بار مولانا فضل الرحمن نے آواز قدرے تاخیر سے اٹھائی ہے ، شاید اس لیے کہ وہ ڈسکہ الیکشن (این اے 75 ) کے ’’انجام‘‘ کا انتظار کر رہے تھے۔ خیر، اب الیکشن کمشن نے (این اے 75) ڈسکہ کا الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے 18 مارچ کو دوبارہ الیکشن کا حکم دیا ہے ، اگرچہ حکومتی پارٹی نے الیکشن کمشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے جو محض لکیر پیٹنے والی بات ہے۔ حقیقتاً دونوں پارٹیاں اس فیصلے پر خوش ہیں اور دوبارہ الیکشن کے اعلان کا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں کہ …؎
کوئی منظور نظر شخص ہی ہارا ہو گا
تبھی اعلان ہوا ، کھیل دوبارہ ہو گا
اس لیے مولانا فضل الرحمن بھی قسمت آزمائی کر دیکھیں ، کیا حرج ہے ، پھر نتیجہ جو بھی نکلے
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنے ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
٭٭٭٭