کراچی پیکیج کے ثمرات کب نظر آئینگے؟

کراچی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور سب سے زیادہ حکومت کو ٹیکس اور ریونیو کراچی سے ہی ملتا ہے لیکن یہ حالت ہے کہ کراچی کے عوام سوشل میڈیا پر محرومی اور کسمپرسی سے متعلق ہی پوسٹس کرتے ہیں اور انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا حالانکہ کراچی جس صوبے میں ہے وہاں گورنر پی ٹی آئی‘ وزیراعلٰی پیپلزپارٹی کا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ کراچی میں ملکی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ کام ہوا ہے اور وہ مشرف دور میں میئر مصطفٰی کمال نے کیا حالانکہ مصطفٰی کمال نے جن منصوبوں کو مکمل کیا ان کی منصوبہ بندی میئر نعمت اﷲ خان مرحوم نے کی تھی لیکن لوگوں نے عدالتوں سے حکم امتناعی لیکر انہیں ان منصوبوں پر عملدرآمد نہیں کرنے دیا۔ مصطفٰی کمال کے دور میں ان منصوبوں پر پوری رفتار سے عمل ہوا اور ان منصوبوں کے آغاز سے قبل کلفٹن سے کراچی ایئرپورٹ تک ڈھائی سے تین گھنٹے لگتے تھے اور ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد یہی فاصلہ نصف گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے۔ مشرف دور میں کراچی چمک اٹھا تھا اور کراچی کے عوام بہت خوش تھے کہ یہاں کا درد رکھنے والی قومی‘ صوبائی اور مقامی قیادت آئی ہے۔الیکشن 2018ء میں کراچی کے عوام نے پی ٹی آئی پر اعتماد کرکے انہیں ووٹ دیا لیکن کراچی کے شہری اب بھی لاوارث ہیں۔ وفاقی بجٹ میں کراچی پیکج کے نام پر رقم رکھی گئی اور اس رقم کے مختص کرنے سے قبل ہی وفاقی حکمراں جماعت کے لوگوں نے برملا کہنا شروع کردیا کہ ہمیں صوبائی حکومت پر اعتماد نہیں اسی لئے کراچی پیکج کی رقم براہ راست پی ٹی آئی کمیٹی گورنر سندھ کے ماتحت خرچ کرکے منصوبوں پر عملدرآمد کرائے گی لیکن سندھ کی صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ ہمارے صوبے میں ہم ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور عملدرآمد کے حقدار ہیں۔ سابق میئر کراچی کا ہمیشہ شکوہ رہاکہ نہ تو میرے پاس اختیارات ہیں اور نہ ہی وسائل کہ میں اپنے شہر کے کام کرسکوں اور عوام کے مسائل حل ہوسکیں اسی لئے جس قدر اختیارات اور وسائل ہیں انہی میں محدود رہ کر تمام ممکن حد تک کراچی کے مسائل کے حل کیلئے کوشاں رہتا ہوں۔بہرحال سیاسی کشمکش اور بداعتمادی اپنی جگہ لیکن خدارا کراچی کے عوام پر ترس کھائیں اور کراچی میں صرف اردو بولنے والے رہائش پذیر نہیں بلکہ ہر زبان بولنے والے لوگ کراچی میں مقیم ہیں اور لسانیت‘ سیاست‘ تعصب کی بنیاد پر فیصلے کرنا چھوڑیں اور کراچی کے مسائل کے حل کیلئے نیک نیتی سے اقدامات ہونے چاہئیں۔ کراچی پیکج پر عملدرآمد کیلئے وفاقی و صوبائی قیادت کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے آئین کیمطابق فوری فیصلے کرے اور کراچی کیلئے انقلابی اقدامات کو مزید سرخ فیتے کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ اگر 1973ء کے آئین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ وفاق براہ راست کسی صوبے کے گورنر کے ذریعے وفاقی فنڈز خرچ کرکے کسی صوبے اور شہر میں ترقیاتی منصوبے مکمل کرسکتا ہے تو فوری طور پر اس پر عملدرآمد کیا جائے اور اگر آئین میں گنجائش موجود نہیں تو آئین میں درج طریقہ کار اختیار کیا جائے لیکن کسی صورت مزید تاخیر کراچی کے عوام سے زیادتی ہوگی۔2020ء میں کراچی میں طوفانی بارشوں اور تباہی کے بعد وفاقی حکومت نے کراچی پیکج کا دوبارہ ذکر کیا اور کراچی کی تقدیر بدل دینے کے عزم کا اظہار کیا لیکن بارشوں کو اب تقریباً 6ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے لیکن کراچی پیکج کے نام پر کوئی انقلابی ترقیاتی کام نظر نہیں آرہے اور نہ ہی کراچی میں صفائی ستھرائی‘ سیوریج‘ پانی کی وافر فراہمی سمیت کوئی پیشرفت نظر آرہی ہے۔ اس قدر سست روی جاری رہی تو کراچی جو پہلے ہی کھنڈر بننے کے قریب ہے‘ اسکے عوام سڑکوں پر آجائینگے کیونکہ کراچی کو فوری طور پر تیز ترین اقدامات کی ضرورت ہے اور عوام کو وافر پانی‘ بہتر سڑکوں‘ صفائی ستھرائی کی ضرورت ہے لیکن کراچی کا سب سے بڑا انڈسٹریل ایریا سائٹ مکمل طور پر تباہ حالی کا شکار ہے اور کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے جہاں سڑکوں کا کوئی وجود نہیں۔3-4ماہ بعد دوبارہ مون سون اور بارشوں کا موسم آجائیگا اور پھر صورتحال مزید خراب ہوجائیگی۔ ارباب اختیار اگر اﷲ اور رسول ﷺ کو مانتے ہیں تو نیک نیتی اور پورے خلوص سے خود کو کراچی والوں کی جگہ رکھ کر تکلیف کا احساس کریں جو روزی روٹی کیلئے کم پریشان لیکن پانی‘ بجلی ‘ صفائی ستھرائی کیلئے زیادہ پریشان ہیں اور کراچی بھر میں غریب عورتیں بچے پانی بھرنے کیلئے قطاروں میں لگے ہوتے ہیں اور اب تو یہی حالت ملک کے تمام بڑے شہروں کی ہے جہاں عوام پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ انہیں قطاروں میں لگ کر جو پانی دستیاب ہے اس کا معیار بھی انتہائی خراب ہے اور وبائی امراض کا پیش خیمہ ہے۔کراچی میں اعلانیہ ساڑھے 7گھنٹے باقاعدگی سے اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کئی دنوں پر مشتمل ہے اور کراچی کی عوام کے الیکٹرک کے مظالم کے سامنے بے بس ہے۔ کے الیکٹرک کو سدھارنے کیلئے وفاق‘ سندھ اور سپریم کورٹ کو یک زبان ہوکر فوری احکامات دینے ہوں گے بصورت دیگر کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لینا بہت ضروری ہے۔ یہ کس قدرظلم ہے کہ پورے ملک کی معیشت کو چلانے اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کے عوام کو ذہنی مریض بنادیا گیا ہے اور اسکی ذمہ داری بھی کوئی لینے کو تیار نہیں۔ کراچی میں جس طرف نظر جاتی ہے کچرے کے ڈھیروں سے تعفن اٹھ رہا ہے اور جگہ جگہ سیوریج کے پانی سے سڑکیں اور گلیاں تالاب بنی ہوئی ہیں۔ اس کا ذمہ کون ہے؟ اسکا ذمہ ہر وہ شخص ہے جس کے اختیار میں کراچی کے فیصلے ہیںلیکن وہ مختلف حیلوں بہانوں سے وقت برباد کرکے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔کسی مخصوص سیاسی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے یا کسی کو فرشتہ بنانے کے بجائے کراچی کے فیصلوں کا اختیار رکھنے والے تمام افراد کراچی پر رحم کریں اور یہاں کے مسائل کے حل کیلئے دن رات کوشاں ہوکر تمام مختص کی گئی رقم سے جلد ازجلد عوام کے مسائل حل کریں۔