گذشتہ روز میں نماز جمعہ کے بعد مسجد سے نکل رہا تھا تو دیکھا ایک شخص مسجد خالی ہونے کے باوجود موجود ہے اور خشوع و خضوع سے دعا میں مصروف ہے۔ مجھے لگا کہ یہ عبدالعلیم خان ہیں۔ میں باہر نکل آیا دیکھا تو ان کی گاڑی باہر تھی۔ میں نے انتظار کیا کچھ دیر میں وہ باہر آئے تو انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی وہ چلے آئے ہم دیر تک لان میں بیٹھے ملکی حالات پر گفتگو کرتے رہے۔ اس دوران ان کے فلاحی کاموں پر بھی بات چیت ہوئی اور یہ تفصیل متاثر کن ہے وہ فلاحی کاموں میں بڑے بڑے بااثر افراد سے بہت آگے ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو ہے کہ وہ فلاحی کاموں میں زیادہ تشہیر نہیں کرتے بلکہ اسے ذمہ داری سمجھتے ہوئے کرتے رہتے ہیں۔
عبدالعلیم خان کا شمار عوام میں رہنے والے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ میں انہیں کافی دیر سے جانتا ہوں ان کے ساتھ پرانا تعلق ہے۔ پرانے تعلق کی بنیاد پر میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ روایتی سیاستدانوں کی طرح نہیں ہیں۔ وہ ایسے سیاست دان نہیں ہیں جو صرف ووٹ کے وقت کی عوام کے پاس جائیں یا پھر جب کبھی مظاہروں اور احتجاج کی ضرورت ہو تو عوام سے رابطہ کریں ایسا نہیں ہے۔ عبدالعلیم خان کا شمار ایسے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں یا کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہ بھی ہوں تو عوام کے ساتھ رابطہ کبھی نہیں چھوڑتے۔ یقیناً ان کی مقبولیت کی یہی ایک وجہ ہے کہ وہ عوام سے جڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دو ہزار گیارہ سے آج تک پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سفر میں انہوں نے اپنے حلقے سے جس بہترین انداز میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہوئے عمران خان کا پیغام گھر گھر پہنچایا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کو مضبوط بنانے میں جن لوگوں نے کام کیا ہے ان میں عبدالعلیم خان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک کامیاب سیاستدان بھی ہیں اور کامیاب بزنس مین بھی ہیں۔ کاروبار کے حوالے سے وہ متعدد بار عوامی سطح پر بھی کہہ چکے ہیں کہ جب تک پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہے وہ اپنے کسی بھی کاروبار کے ساتھ فعال کردار ادا نہیں کریں گے۔ اس فیصلے کا واحد مقصد یہی ہے کہ ہر طرح کے حالات میں سیاست اور کاروبار کو الگ رکھا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے تنازعے سے بچتے ہوئے روایتی سیاست سے جان چھڑائی جائے۔ ان دنوں بھی عبدالعلیم خان پنجاب میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ مشکل وقت میں دوستوں کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
گذشتہ دوز ہونے والی ملاقات میں ملک کے سیاسی حالات، پنجاب کے مختلف علاقوں کے سیاسی و عوامی مسائل پر تفصیلی گفتگو ہوئی بالخصوص اشیاء خوردونوش آٹا،چینی،گھی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور عدم فراہمی کے حوالے سے بھی عبدالعلیم خان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے پوچھا کہ جناب آنے والے دنوں میں پاکستان کو گندم، آٹے کے بحران کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے عوام کو پرامید رہنا چاہیے کہ ہماری ضرورت کے مطابق گندم پیدا ہو گی اور اس مرتبہ عام آدمی کو آٹے کی فراہمی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایت یا تکلیف نہیں اٹھانا پڑے گی۔ یہ برسوں کے مسائل ہیں ہم انہیں اپنی حکومت بلکہ مختصر دور حکومت میں مکمل طور پر حل تو نہیں کر پائے لیکن ہم نے ایسے اقدامات ضرور کیے ہیں کہ آنے والے دنوں میں عام آدمی کے مسائل بھی کم ہوں گے اور اشیائے خورد و نوش کی فراہمی کے حوالے سے بھی مرحلہ وار بہتری آتی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف عوامی امنگوں پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے یہ درست ہے کہ عوام کو جو توقعات وابستہ تھیں ان میں سو نمبر تو نہیں دیے جا سکتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے مختصر وقت میں دہائیوں سے سے پیدا کردہ بڑے مسائل حل کرنے کے لیے درست اقدامات ضرور کیے ہیں۔ جہاں تک تعلق مہنگائی کا ہے اس میں ایک وجہ مصنوعی مہنگائی ہے اور اس مصنوعی مہنگائی کے پیچھے پاکستان کی روایتی سیاست یا روایتی سیاسی کلچر ہے جہاں مختلف اہم کاروباری سیاست دان اور ان کے قریبی تعلق رکھنے والے کاروباری حضرات اپنے کاروبار کا فائدہ اٹھا کر سیاست کرتے ہیں اور اس کاروباری سیاست میں عوام پر بوجھ بڑھتا ہے۔ یہ مصنوعی مہنگائی کا ایک طریقہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف مجموعی حالات ہیں اور مشکل حالات سے صرف پاکستان ہی دوچار نہیں بلکہ ساری دنیا کو معاشی مسائل کا سامنا ہے بالخصوص کرونا کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت پر برا اثر پڑا ہے ترقی یافتہ ممالک کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پاکستان بھی ابھی اس مشکل دور سے گذر رہا ہے جب کرونا کی وجہ سے معیشتیں سست روی کا شکار ہیں لیکن اس دوران بھی وزیراعظم عمران خان نے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مہنگائی کی ایک وجہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی میں توازن نہ ہونا ہے۔ جبکہ چیزوں کی لاگت پڑھنے سے بھی اشیاء خوردونوش، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔حکومت کو آنے والے دنوں میں ان مسائل پر زیادہ بہتر اور عوامی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں مسائل کا اندازہ ہے اور انہیں حل کرنے کے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ہی واحد سیاستدان ہیں جو اس ملک کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے اور ملک کو پائیدار امن کے ساتھ ساتھ ترقی کی منازل کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں۔ ان کا کوئی ذاتی کاروبار یا حکومت میں رہنے کے لئے کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ عمران خان کا واحد مفاد پاکستان کی ترقی اور عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنا ہے اور ہم آنے والے دنوں میں اس حوالے سے ضرور کامیاب ہوں گے۔ مہنگائی کی ایک وجہ لاگت میں اضافہ ہے اور یہ اضافہ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ اب یہ تحفے ماضی کی حکومتوں سے ملے ہیں پھر بین الاقوامی مارکیٹ کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ صرف یہ کہنا درست نہیں کہ ہمیں مقامی طور پر مسائل کا سامنا ہے کچھ مسائل بین الاقوامی بھی ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی نے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے نفرت کی سیاست کے اس دور میں سیاسی رواداری کو فروغ دیا ہے۔ جس انداز میں انہوں نے سب کو ملا کر مشکل عمل کو بات چیت کے ذریعے آسان بنایا ہے یہ طرز عمل قابل تعریف ہے۔ پنجاب میں ایسی سیاسی رواداری سے یہ پیغام تو ضرور جاتا ہے کہ یہ مشق ہر سطح پر ممکن ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج کا مرکز پنجاب ہے اور پنجاب سے سینٹ الیکشن میں نظر آنے والا باہمی تعاون یہ پیغام دیتا ہے کہ کام کرنے کا یہ انداز ہر جگہ ممکن ہے۔ اب حکومت اور اپوزیشن آگے بڑھ کر عوامی مسائل حل کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ جس طرح سیاست دان اپنے کاموں میں اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں ویسے ہی انہیں عوامی مسائل کے لیے متحد ہو جانا چاہیے۔ چودھری پرویز الٰہی، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں وہ "کہتے ہیں ان انتخابات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سیاسی لحاظ سے مکمل باخبر اور مکمل کنٹرول بھی رکھتے ہیں"۔ چودھری صاحب نے پنجاب کی سطح پر واقعی بڑا کام کیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ چودھری فواد حسین بھی اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں نبھا رہے ہیں۔ ان دنوں جس طرح وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور بات چیت کے ذریعے بند راستے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو ایسے چہروں کی ضرورت ہے جو غیر ضروری اور شدت پسندی کے بیانات کے بجائے اسمبلیوں کے ماحول کو بہتر بنائیں، سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے دروازے کھولیں، ایک میز پر بیٹھ کر ملکی مسائل حل کرنے کے لیے بات چیت کریں۔ اپوزیشن کو بھی اب پرانی باتوں کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے ایک دوسرے کو طعنے دینے کے بجائے ملک کے بہتر مستقبل پر بات چیت شروع کریں۔ اگر وفاق کی سطح پر فواد چودھری ،پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی یہ کام کر سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ بہتر گفتگو اور تعلقات سے کہیں بھی بند دروازے کھولے جا سکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024