1258عیسوی میں ہلاکو خان کی زیر قیادت منگول افواج بغداد پر حملہ آور ہوئیں اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی۔ موت کے خوف سے لرزتے کانپتے جوانوں، بوڑھوں ، خواتین اور بچوں کوبربریت سے تہ تیغ کردیا گیا، عمارات اور کتب خانے جلاکر راکھ کردئیے گئے۔ اپنے باپ چنگیز خان کی طرح ہلاکوخان بھی اپنی اذیت پسند طبیعت کو تسکین دینے کے لیے شہر کا گشت کررہا تھا۔ ہلاکوخان کا ایک خانقاہ میں جانا ہوا جہاں درویش اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کررہے تھے، ہلاکو خان کو دیکھ کر ان پر رتی برابر بھی خوف طاری نہ ہوا، اس پر اسے بڑا تعجب ہوا، اس نے درویشوں سے پوچھا ، کیا تمہیں موت سے ڈر نہیں لگتا تو درویشوں نے اپنی گردنیں منگولوں کی تلواروں کے نیچے رکھ دیں اور کہا کہ موت بھی کوئی ڈرنے کی چیز ہے، یہ تو بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونے کا راستہ ہے، یہ سن کر ہلاکو خان کے دل پر نامعلوم سی دہشت طاری ہوگئی اور اس نے منگول افواج کو حکم دیا کہ نہ صرف ان درویشوں بلکہ کسی بھی خانقاہ میں کسی کو کچھ نہ کہا جائے۔
بغداد فتح اور عباسی حکمران مستعصم باللہ کو قتل کرنے کے بعد منگول شام پر حملہ آور ہوئے اور عباسی حکومت کا مکمل خاتمہ کردیا۔منگول تیزی سے پیشقدمی کررہے تھے کہ فلسطین کے شہر نابلوس کے قریب ان کا سامنا مملوک سلطان سیف الدین قطز ، اس کے سپہ سالار رکن الدین بیبرس اور ان کی افواج سے ہوا، اس معرکے میں منگولوں کو شکست ہوئی اور ان کی پیش قدمی رک گئی وگرنہ قتل و غارت کا جانے کتنا بازار گرم ہوتا۔ان تمام واقعات میں درویشوں اور مملوک سلطان سیف الدین کو یاد رکھیے گا۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔
2001 ء میں نائن الیون کے مشکوک حملے کے بعد امریکہ نے ستائیس سے زائد ممالک کی اتحادی افواج کے ساتھ افغانستان پر حملہ کردیااور چنگیز و ہلاکوخان کی یاد تازہ کردی۔ ایک بین الاقوامی ٹی وی چینل یہ مناظر نشر کررہا ہے کہ اتحادی افواج "دہشتگردوں"کی تلاش میں ایک گائوں میں داخل ہوئیں اور گھر گھر تلاشی شروع کردی، ایک کھیت میں افغان بزرگ محنت کررہا ہے، فوجیوں نے اسے زمین پر گھٹنوں کے بل بٹھاکر ہاتھ پیچھے باندھے اور سر نیچے جھکانے کا حکم دیا جسے اس افغان بزرگ نے ماننے سے قطعاً انکار کردیا، اس کے اردگرد جدید ترین ہتھیاروں سے لیس درجنوں فوجی جمع ہیں ، افغان بزرگ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ایک ہی لمحہ میں اسے موت کی نیند سلایا جاسکتا ہے ، اس کے باوجود وہ سرجھکانے کو تیار نہیں، فوجیوں نے اس پر تشدد شروع کردیا، سر پر گھونسے مارے، بندوقوں کے بٹوں سے اسے لہو لہان کردیا لیکن وہ اس افغان بزرگ کو سرجھکانے پر مجبور نہیں کرسکے۔
یہاں اس بزرگ کو یاد رکھیے گا۔ مزید آگے بڑھتے ہیں، یہ فلسطین ہے، صہیونی افواج حسب معمول اسرائیلی ناجائز قبضے کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے فلسطینیوں پر آنسو گیس اور گولیاں داغ رہی ہیں مگر وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، ان فلسطینیوں میں دونوں ٹانگوں سے معذور وہیل چیئر پر بیٹھا ایک نوجوان بھی ہے جو صف اوّل میں موجود اور غلیل کے ذریعے اسرائیلی فوجیوں پر پتھر برسارہا ہے اور برستی گولیوں کے باوجود پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ، بالآخر ایک گولی سینے میں لگتی ہے اور وہ نوجوان شہید ہوجاتا ہے، اس فلسطینی نوجوان کو بھی یاد رکھیے گا۔
اب مقبوضہ کشمیر چلتے ہیں، ایک ملین سے زائد بھارتی فوجیوں نے پورے کشمیر کو زندان بنارکھا ہے ، ہر روز درجنوں کشمیری بھائی بہنیں شہید کیے جارہے ہیں، پیلٹ گنز سے انہیں نابینا کیا جارہا ہے لیکن کشمیری بھائی بہنوں کو آزادی کا نعرہ لگانے سے روکنے میں ناکام ہیں۔
بغداد کی خانقاہوں کے درویش، منگولوں کی پیش قدمی رکنے والا مملوک سلطان سیف الدین، رکن الدین بیبرس، افغانستان کے کھیت میں بیٹھا لہولہان مگر سرتانے گھٹنوں کے بیٹھا بزرگ، فلسطین میں وہیل چیئر پر بیٹھا معذور نوجوان اور ہمارے کشمیری بھائی بہن ناواقف آداب غلامی ہیں اور بھاری مصائب کے باوجود اسیری کی زنجیریں پہننے کو تیار نہیں۔ ہلاکوخان کی ہلاکت خیزیوں کا دور ہو یا پھر کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کا دور حاضر ، یقینا ایسے غیور مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں رہی ہوگی لیکن بیشتر وقت انہیں مسلمان حکمرانوں کی سپورٹ حاصل نہ رہی جس کی وجہ سے یہ غیرت مند مسلمان جذبہ حمیت ساتھ لیے شہید ہوتے چلے گئے۔ آج دنیا میں مسلمان ممالک کی تعداد ستاون ہے ، ماسوائے چند ایک ممالک ، بقیہ تمام آداب غلامی سے اچھی طرح آشنا ہیں اور مغرب کے قدموں سے لپٹے ہوئے ہیں اور مسلمان عوام کے حق میں ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ حالیہ مثال یہ ہے کہ او آئی نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے سے خارج ہی کردیا ہے، اس سے قبل سعودی عرب اور یو اے ای گجرات کے قصائی نریندر مودی کو اعلی ترین ایوارڈ دے ۔ اگر بات صرف پاکستان کی کریں تو ہمارا حال بھی کوئی قابل رشک نہیں ہے۔
پورے کشمیر کو بھارت جیل بنا دیتا ہے تو ہم اپنے دفاتر، کاروباروں میں وقفہ کرکے آدھا گھنٹا سڑک پر کھڑے ہوکر اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ افغانستان سے خبر آتی ہے کہ شادی کی تقریب پر بم گرا کر درجنوں افراد شہید کردئیے جاتے ہیں تو ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، شام کو تجربہ گاہ بناکر امریکہ و روس اپنے جدید ترین ہتھیار ٹیسٹ کرکے ہزاروں شامیوں کوہلاک کرنے کی خبر سرسری سن یا پڑھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
پانچ پانچ سال کے بچوں سے زیادتی و قتل کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو فیس بک پر جہادکافی سمجھا جاتا ہے، بجلی گیس کی قیمت بڑھتی ہے تو گلی کی نکڑ پر کھڑے ہوکر بھڑاس نکال لیتے ہیں، آئین شکنی پر عدالت فیصلہ سناتی ہے تو ہرکوئی ماہر آئین بن جاتا ہے ، کسی دوسرے ملک میں ہونے والا واقعہ پر احتجاج کے نام پر اپنے ہی ملک کو آگ لگا دی جاتی ہے ۔ دشمن کے اشاروں پر ناچنے والے چند ایک لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور آزادی رائے کے نام پر فوج پر دشنام طرازی شروع کردیتے ہیں قطع نظر اس کے کہ قیام امن کے لیے ہمارے جوانوں نے کتنی جانیں قربان کیں۔ تاریخ میں جب بھی انقلاب آئے ہیں وہ کسی ایک قوم سے شروع ہوئے اور دنیا کے بڑے حصے میں پھیلتے چلے گئے تو پاکستانی قوم اگر آداب غلامی سے ناواقف ہوجائے تو مسلم امہ کا ضمیر جھنجوڑ سکتی ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024